کراچی : کے الیکٹرک (کے ای) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی کا کہنا ہے کہ قابل تجدید توانائی کو پاور سیکٹر میں اس طرح شامل کیا جانا چاہیے، جس سے سسٹم کی استعداد میں اضافہ ہو۔ ایک قابل بھروسہ پاور نیٹ ورک ایک مستحکم شہر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے توانائی کا مستقبل ویبینار میں عالمی ورچوئل سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس کا عنوان ”ماحولیاتی عمل کو مضبوط بنانے میں پاور سیکٹر کا کردار“ تھا۔

ویبینار میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم سمیت توانائی کی صنعت سے وابستہ ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ مباحثے میں پاکستان کے بجلی کی پیداوار میں قابل تجدید توانائی کا حصہ بڑھانے کے منصوبوں اور ان میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے سیرحاصل بحث کی گئی۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس حوالے سے ملکی صنعتوں اور پاور سیکٹرکو تبدیلی کے سفر میں ایک اہم کردارادا کرنا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم نے خطاب میں کہا کہ قدرتی ماحول کو بچانے کے لیے قابل تجدیداور شفاف توانائی موسمیاتی تبدیلی کا اہم ستون اور گلاسگو معاہدے کا ایک اہم جز ہے۔ پاکستان فضائی آلودگی اور کاربن کا اخراج کرنے والا بڑا ملک نہیں ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حل کا حصہ بننا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں واضح قومی سوچ موجود ہے۔ گزشتہ سال پاکستان میں محفوظ علاقوں (نیشنل پارک) کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان فضائی آلودگی اور کاربن اخراج کے حوالے سے سال 2030 تک کے متعین کردہ اہداف کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 10 سالہ منصوبے کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دوسرے ممالک کی طرح کاربن کے اخراج کو صفر سطح پر لانے کے مشن پر گامزن ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین نیپرا توصیف فاروقی نے ریگولیٹر کے Power with Prosperity وژن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کہ نیپرا کے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی (سی ایس آر) پورٹل پر 300 سے زائد لائسنس یافتگان میں سے 145 نے اپنے آپریشنل علاقوں کی کمیونیٹیز کی ترقی اور خوشحالی کے لیے 4.4 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے تقریباً 18,900 ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی کوششوں اوروژن Indicative Generation Capacity Expansion Plan (IGCEP) کی تعریف کی، جس کی حال ہی میں منظوری دی گئی ہے، اس وژن میں ”پہلی مرتبہ بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے سائنسی طریقہ اپنا گیا ہے۔“جس سے بجلی کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی ہوگی، اوراس کا فائدہ صارفین کو بجلی کے بل میں کمی کی صورت میں ملے گا۔

کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے مستحکم قومی ایجنڈے کے حوالے سے پاور سیکٹر کے کردار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کے ای نے سال 2030 کے لائحہ عمل میں بجلی کی پیداوار میں قابل تجدید ذرائع سے 1100میگا واٹ اضافے کی منصوبہ بندی کی ہے۔انہوں نے ورلڈ بینک اور سندھ انرجی ڈپارٹمنٹ کے ساتھ شراکت داری کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت کے الیکٹرک ورلڈبینک اور محکمہ توانائی سندھ سے 350 میگاواٹ تک شمسی توانائی خریدے گا۔ مزید برآں کے ای نیٹ میٹرنگ کے ذریعے 40 میگاواٹ اضافہ کرے گا۔ پاور سیکٹر کی ذمہ داری پر تبصرہ کرتے ہوئے مونس علوی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شہر کراچی کو سخت موسمی حالات سے محفوظ رکھنے میں کے ای خود کو ایک رول ماڈل سمجھتا ہے۔ یہ شہر سخت موسمیاتی حالات کا مقابلہ کرنے کی کافی استعداد رکھتا ہے۔

چیئرپرسن پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ڈاکٹر شمشاد اختر نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں سستے اورکم اخراج سے بجلی کی پیداوار کا نیا راستہ اختیار کرنے کے بہت سے مواقع ہیں۔ انہوں نے گورننس اسٹرکچر کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں مضبوط شعبہ جاتی پالیسیوں اور قومی Decarbonization حکمت عملی پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا، جو کہ ماحولیاتی استحکام کے لیے لازمی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) بہترین انتخاب ہے۔ توانائی کے متنوع ذرائع اور مقامی طور پر سرمائے کے حصول و طویل مدتی قرض کے لیے صنعت کو اس جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی 106 پائیدار اسٹاک ایکس چینجز کی پیروی کرتے ہوئے پی ایس ایکس بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر ان ایکس چینجز میں 53,000 سے زائد کمپنیز کا اندراج ہے اور مارکیٹوں کا حجم تقریباً 88 ٹریلین ڈالر ہے۔ پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لیے قابل عمل فریم ورک کو اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ریگولیٹرز پر زور دیا کہ وہ معیاری بین الاقوامی طریقوں اور رہنما خطوط کے مطابق مستحکم گرین بانڈز اور ایس ڈی جی بانڈ کے اجرا پر غور کرے اور کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا ادارہ جاتی بنائے۔ اس کے علاوہ مرکزی بینک کو ماحولیاتی خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے بینکوں کے اثاثوں اور مالیاتی استحکام کے لیے ایک پروڈنشل فریم ورک بنانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ اپنے Stranded Assets کے لیے مزید فنڈز تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی نئی سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جس نے پاکستان کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ وہ کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبے خریدے گا اور توانائی کی منتقلی کے طریقہ کار Energy Transition Mechanism (ETM) کے تحت صاف توانائی فراہم کرے گا۔

ڈائریکٹر گورننس اینڈ پالیسی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان ڈاکٹر عمران ثاقب نے استحکام کے لیے شراکت داری کی اہمیت کے حوالے سے اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”ذہنی ہم آہنگی شراکت داری کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔“ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں گرین انرجی کی جانب منتقل ہوتے ہوئے اُن کمیونیٹیزکو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جن کی آمدن کا انحصار روایتی ایندھن پر ہے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں جن منصوبوں پر کام کر رہا ہے، ان کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب نے واضح کیا کہ فنڈنگ کے درست ذرائع تک رسائی اور منصوبوں کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کا صحیح امتزاج بھی ضروری ہے۔

ورلڈ بینک کی سینئر پالیسی کنسلٹنٹ ارمینہ ملک نے سندھ اور بلوچستان میں قابل تجدید توانائی کے حوالے سے ورلڈ بینک کی اسٹڈیز کے دلچسپ نتائج سے آگاہ کیا۔ ورلڈ بینک کی تحقیق کے مطابق دونوں صوبوں میں کم از کم دس، دس میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی صلاحیت ہے، جو کہ بہت امید افزا بات ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان کا ترسیلی نظام ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی 20 گیگا واٹ (جی ڈبلیو) سے زیادہ بجلی کی ترسیل کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس کے ساتھ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نیٹ ورک میں قابل تجدید توانائی کو شامل کرنے کی اضافی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اگرچہ ان منصوبوں پر کافی لاگت آئے گی، لیکن اس سے طویل مدتی بچت کئی گنا ہو گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا گرین انرجی انتہائی طلب کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے؟

ارمینہ ملک نے کہا کہ ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیٹری اسٹوریج کو سسٹم میں شامل کیا جائے، لیکن اس کے لیے اُس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا، جب تک کہ بیٹریوں کے ذریعے بجلی کی لاگت مسابقتی سطح پر نہ آجائے۔

دی فیوچر آف انرجی ویبینار گفتگو کا ایک سلسلہ ہے، جس میں عالمی توانائی کے شعبے،خاص طور پر پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے سوچ رکھنے والے رہنماؤں کو اظہار خیال کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

Shares: