گندم خریداری کیس، وزیراعلیٰ بلوچستان ذاتی حیثیت میں طلب

0
104
cm bugti

بلوچستان ہائیکورٹ میں گندم کی خریداری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے سماعت کی، عدالت نے وزیراعلی بلوچستان کو کیس میں ذاتی طور پر طلب کرلیا .ایڈوکیٹ جنرل آصف ریکی نے عدالت میں وضاحت کی کہ وزیراعلی بلوچستان آج کوئٹہ میں نہیں اسلئے وہ آج عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے، وزیراعلی کی اسلام آباد سے واپسی کل ہوگی، عدالت نے درخواست کی سماعت 12جون بروز منگل تک ملتوی کردی،عدالت نے ڈی جی خوراک ظفر اللّٰہ کے تبادلے کےنوٹیفکیشن پر عمل درآمد روکنے کا حکم بھی دے دیا۔واضح رہے کہ گندم کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق درخواست اوستہ محمد کے ایک شہری محمد صادق نے دائر کر رکھی ہے۔

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل محکمہ خوراک نے چیف جسٹس بلوچستان کے سامنے محکمے میں گندم کی خریداری میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا جس پر معزز عدالت نے محکمے کو گندم کی خریداری سے فوری طور پر روک دیا تھا ۔ دو رکنی بینچ کے معزز ججز نے سیکرٹری خزانہ حکومت بلوچستان کو محکمہ خوراک کے حق میں 2.5 بلین روپے جاری کرنے سے بھی روکا تھا ۔ اسی طرح سیکرٹری محکمہ خوراک اور پروجیکٹ ڈائریکٹر گندم خریداری مہم 2024 کو مڈل مین یا کوئی اور شخص کو اگلی سماعت تک آگے کی ادائیگی سے بھی روک دیا۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر گندم خریداری مہم 2024 کو آئندہ سماعت تک باردانہ کی تقسیم فوری طور پر روکنے کی بھی ہدایت کی اور انہیں گندم کی خریداری کے سلسلے میں بڑے زمینداروں کے ساتھ ساتھ مڈل مین کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے سے بھی روک دیا تھا۔

سماعت کے دوران محکمہ خوراک کے ڈائیریکٹر جنرل نے خریداری کے متعلق کرپشن کے انکشاف کے متعلق دستاویزات فراہم کئے ۔ دستاویز میں بتایا گیا کہ محکمہ خوراک نے اسٹریٹجک ذخائر ہونے اور اندرون خانہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود 50000 میٹرک ٹن اضافی گندم کی خریداری کا یہ اقدام صرف چھوٹے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی اور مدد کے لیے کیا تھا لیکن پروجیکٹ ڈائیریکٹر کی ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے نصیر آباد ڈویژن کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں اور چھوٹے حقیقی کاشتکاروں کے بجائے مڈل مینوں اور بروکرز سے غیر قانونی مطالبات، بدعنوانی اور باردانہ کی تقسیم غیر شفافیت کی اطلاعات ہیں جب ڈائریکٹر جنرل خوراک کو کیس کے اس پہلو کا سامنا ہوا تو انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا اور کہا کہ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے، محکمے کی طرف سے کی جانے والی غیر قانونی اور بے قاعدگیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے، انہوں نے چیف سیکریٹری ، سیکریٹری محکمہ خوراک ، پروجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی کمشنرز کو خطوط لکھے ۔ ڈائریکٹر جنرل محکمہ خوراک نے بتایا کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مبینہ طور پر گندم کی خریداری کا طریقہ کار ناقص اور غیر منصفانہ ہے۔ گندم غریب کسانوں کی بجائے درمیانی آدمی ، بیوپاریوں یا بڑے زمینداروں سے خریدی جارہی ہے اس نے کہا کہ ایک سادہ طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے اور یہ عمل شفاف طریقے سے سر انجام دینا چاہیے۔ محکمہ خوراک نے چھ سال گزرنے کے باوجود کمرشل بینکوں کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری ابھی تک صاف نہیں کی ہے جو کہ 2.5 بلین روپے ہے۔ اس کمرشل بینک کے قرض کی ادائیگی کو جلد از جلد کلیئر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ محکمہ کو 20 لاکھ روپے یومیہ سود 2018 کے بعد سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ اسٹریٹجک ذخائر، ڈی جی، خوراک کی طرف سے حکومت بلوچستان کے پاس فراہم کردہ معلومات کے مطابق تقریبا 815,000 تھیلے ہیں، جب کہ گودام کی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش 01 ملین سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسے حالات میں گندم خریدنے کی ضرورت نہیں ہے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت بلوچستان کو 500,000 تھیلوں کی ضرورت کیوں ہے جب کہ 01 ملین سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے

Leave a reply