پُرانے فاٹا اور قبائلی علاقوں میں غیر ریاستی عناصر کی جانب مسلح کواڈ کاپٹر کا عام استعمال
خوارج کے ساتھ ساتھ قبائل بھی آپس کی لڑائیوں میں مسلح کواڈ کاپٹر استعمال کرنے لگے،مزے کی بات یہ ہے کہ یہ غیر ریاستی عناصر مسلح کواڈ کاپٹر استعمال کر کے الزام فوج پے لگا دیتے ہیں-آج کل سوشل میڈیا، خصوصاً قبائلی علاقوں سے آنے والی خبروں میں اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ "ڈرون حملہ ہوا”۔کبھی بچوں کو نشانہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو کبھی بے گناہ شہریوں کو۔ ان خبروں پر شرپسند عناصر اور خودساختہ پشتون حقوق کے علمبردار بغیر کسی تحقیق کے ان حملوں کا الزام ریاستی اداروں پر دھر دیتے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئی یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ حملہ کس نے کیا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ حملہ فتنہ الخوارج یا ان کے سہولت کاروں کی جانب سے کواڈ کاپٹر کے ذریعے کیا گیا ہو؟یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ریاستی ڈرون اور کمرشل کواڈ کاپٹر میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ریاستی ڈرون ایک منظم نظام کے تحت کام کرتا ہے — اس کا ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے، اس کا راستہ، ہدف اور مقصد سب واضح ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، کمرشل کواڈ کاپٹرز نہایت آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور ان کا استعمال بے ضابطہ ہوتا ہے، جسے کوئی بھی کسی بھی مقصد کے لیے بغیر نگرانی کے استعمال کر سکتا ہے۔
بدقسمتی سے، اب قبائلی علاقوں میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ فتنہ الخوارج کی تقلید میں بعض مقامی قبائل بھی چند ہزار روپے کا کواڈ کاپٹر خرید کر اپنے ذاتی جھگڑوں اور انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ علاقے کے امن و امان کے لیے ایک نیا اور خطرناک چیلنج بھی ہے۔دہشت گرد عناصر انہی سے فائدہ اٹھا کر مخصوص اہداف کو نشانہ بناتے ہیں اور سارا الزام ریاست پر ڈال کر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
ہمیں عوام میں اس بات کی آگاہی پھیلانی چاہیے کہ کواڈ کاپٹر جیسے جدید آلات کا غیر قانونی استعمال نہ صرف سنگین جرم ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کو ایک نئی طرز کی خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ کواڈ کاپٹرز کی خریداری اور درآمد پر قانون سازی کرے کواڈ کاپٹر کے بغیر لائسنس استعمال پے فوراً پابندی عائد کرے ۔