کرونا وائرس تو بس ایک ٹریلر ہے، پکچر ابھی باقی ہے بقلم : سلطان سکندر

کرونا وائرس تو بس ایک ٹریلر ہے، پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست

فیکٹریوں کے دھوئیں سے گلوبل وارمنگ ڈسٹرب ہورہی ہے اور گلوبل وارمنگ کے بڑھنے سے ایٹماسفئیر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے(یعنی گرمی بڑھ رہی ہے)، جسکی بدولت گلیشیرز بہت تیزی سے پگھل کر سمندر بنتے جارہے ہیں۔

لیکن سائنسدانوں کے مطابق انٹارٹکا اور سائیبریا میں موجود ہزاروں سال پرانے برف والے گلیشیرز کے نیچے ایسے وائرسز موجود ہیں جو سائز میں بڑے ہیں اور انکا سر پیر بھی انسان نہیں جانتے، اگر انٹارٹکا اور سائیبیریا کے گلیشیرز گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پگھلنا شروع ہوگئے تو یہ وائرسز وہاں سے تیزی سے پھیل جائیں گے،

ہر جاندار میں اچھے وائرسز بھی موجود ہوتے ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر طرح کے جانور میں کئی طرح کے وائرسز ہوتے ہیں جو کہ جسم کو انرجی دینے میں مدد کرتے ہیں جیسا کہ ایک چمکاڈر 137 وائرسز لیے گھوم رہا ہوتا ہے تو اسے کھانے سے انسان میں جانوروں کے وائرسز منتقل ہوتے ہیں جس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، اس لیے مسلمانوں کو حلال جانور کھانے کا حکم ہے،

تو تحقیق کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ انٹارٹکا اور سائیبیریا کے گلیشیرز کے نیچے ہزاروں سال پہلے جو جانور ان وائرسز کا شکار تھے وہ برف تلے دب کر مرگئے لیکن ان کی لاشوں کے ساتھ ساتھ انکے وائرسز بھی محفوظ حالت میں اب بھی وہاں موجود ہیں۔
اس لیے ہمیں فیکٹریوں کے دھوئیں کے متبادل کوئی راستہ نکالنا ہوگا جو گلوبل وارمنگ کو ڈیمیج نہ کرے اور جس سے انٹارٹکا اور سائیبیریا کے گلیشیرز پگھلنے سے محفوظ رہ سکیں۔
ورنہ انسانوں کی نسلیں انہی وائرسز کا متبادل ڈھونڈنے اور لاشیں اٹھانے میں گزریں گی۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین

بقلم سلطان سکندر!!!

Comments are closed.