2019 میں ایک وبا عام ہوئی جسکو کرونا وائرس کا نام دیا گیا ساری دنیا کو اس وائرس نے تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیا پاکستان میں فروری 2020 کرونا وائرس کے دو مریض سامنے آئے ان میں سے ایک مریض کراچی اور دوسرا وفاقی سے تھا دونوں مریض ایران کے سفر سے لوٹے تھے اس کے بعد تو جیسے کرونا نے سر اٹھا لیا اچانک کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک کرونا کی لپیٹ میں آگیا عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ اگر حفاظتی تدابیر نہ اختیار کی گئیں تو جولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے اس کے بعد ان میں اضافہ ہوگا یا کمی واقعہ ہوگی وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوں گے جو آج کافی حد تک درست ثابت ہوئی،
ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈ بنائے گئے عوام کو آگاہی دی گئی ماسک پہنیں، غیر ضروری گھروں سے باہر نا نکلیں، ہاتھ بار بار دھوئیں،مگر وہ پاکستانی ہی کیا جو حکومتی اقدامات کو سنجیدہ لیں جوں جوں ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی وہی آکسیجن کی کمی سامنے آئی دوسرے ممالک سے مدد ملی کرونا پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش ناکام ہوئی تب حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ لیا گیا، جن شہروں میں کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے وہاں سخت لاک ڈاؤن لگایا گیا اس کے باوجود عوام نے اس وبا کو سنجیدہ نا لیا لاکھ پابندیوں کے باوجود گلی محلوں چھوٹے ہوٹلوں پر عوام کے ہجوم نظر آتے رہے، سخت لاک ڈاؤن میں اسکول ،کاروبار ، تو بند ہوئے مگر سیاسی سرگرمیاں اپنی عروج پر تھی حکومت جماعت ہو یا اپوزیشن سب نے اپنی سیاست کے لیے عوام کی جانوں سے کھیلا جلسے ہوتے رہے انتخابی مہم چلتی رہی یہی وہ خاص وجہ رہی جس نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کونسا وائرس ہے جو صرف شادیوں ہوٹلوں اسکولوں میں آتا ہے جلسوں میں نہیں، حالیہ کچھ دنوں میں کراچی میں 48 افراد کرونا سے انتقال کرگئے اس سے پہلے پنجاب میں 25 افراد ایک دن میں کرونا سے انتقال کرگئے تھے، ڈاکٹر کرونا مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ وہ وقت تھا جب ہمارے پاس ویکسین کی سہولت موجود نا تھی اب پاکستان میں ویکسین لگائی جارہی ہے بڑی تعداد میں لوگ ویکسین لگوا رہے ہیں ہر شہر بلکہ اب تو ہر علاقے میں ویکسین کی سہولت موجود ہے،
کچھ لوگ پوچھتے ہیں ویکسین لگوانے سے کرونا نہیں ہوگا؟
جن لوگوں کو ویکسین لگی وہ بھی کرونا کا شکار ہوئے ہیں تو جناب اسکا جواب یہی ہے کرونا ہوگا مگر اسکی شدت اتنی تیز نا ہوگئی جو آپکی جان لے جاے آپ کے جسم میں وائرس سے لڑنے کی طاقت موجود ہوگئی جس سے آپ بہت جلدی اس وبا سے لڑ سکیں گے جبکہ ویکسین نا لگوانے والوں کو کافی تکلیف سے گزرنا ہوگا جس میں سانس کی کمی سب سے خطرناک ہوسکتی ہے جو آپکی جان لے جاے،
دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آرہے "ویکسین نہیں ہے یہ ویکسین کے نام پر تجربہ ہورہا ہے "جس سے دو سالوں میں ویکیسن لگوانے والے مرجائیں گے خواتین بانجھ ہوجاہیں گئی مرد نا مرد ہوجاہیں یہ ساری من گھرٹ کہانیاں ہیں جو ہم میں سے ہی لوگوں کی بنائی گئی ہیں ہم میں موجود بہت سے لوگ آج بھی پولیو ویکسین کو نہیں مانتے یہ سلسلہ ایک عرصے سے چلا آرہا جو کبھی نہیں رکے گا، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اللہ نے انسان کے ہاتھ میں کوشش رکھی ہے جو ہماری حکومت عوام کے لیے کررہی ہے
ویکسین لگوائیں یا نا لگوائیں یہ اپکا ذاتی عمل ہے کم از کم من گھڑت کہانیاں بناکر خود کو بہت بڑا سائنسدان سمجھ کر سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپلوڈ کرکے عوام کو گمراہ نا کریں ایسی ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف حکومت کو اداروں کو سختی سے نوٹس لینا چائیے جو عوام میں مایوسی خوف پھیلا رہے ہیں
اگر اب بھی کوئی ویکسین نہیں لگواتا وہ اپنا اپنی فیملی کا زمہ دار خود ہوگا ایسا نا ہو ہسپتال میں آکسیجن نا ملے یا وقت پر ڈاکٹر موجود نا ہو سوچیے۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے قریبی ویکسین سینٹر جانے میں دیر نا کریں کیونکہ یہ وبا دروازہ بجاکر نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر راحیلہ عقیل