اسے سیلف آئسولیشن کہیں لوارنٹائین پکاریں یا کچھ اور مگر یہ حقیقت ھے ھم سب جہاں بھی ھیں ایک مختلف دنیا دیکھ رھے ھیں۔ میں پچھلے کچھ دنوں سے بدلتی دنیا کا مشاھدہ کر رھا ھوں اور درج ذیل حقائق میرے سامنے آۓ ھیں جو اگر یاد رکھے جائیں تو اس وبا کے بعد مثبت تبدیلی معاشرہ میں لا سکتے ھیں۔
۱۔ کئ کمپنیوں اور سرکار کے ملازم گھر بیٹھے کام کر سکتے ھیں۔ یعنی بے وجہ کی چھٹیوں سے چھٹکارا پایا جا سکتا ھے۔
۲۔ ھم اور ھمارے بچے فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کے بغیر جی سکتے ھیں۔
۳۔ معمولی سزا یافتہ غریب اور لاچار قیدیوں کو آسانی سے رھائ مل سکتی ھے۔ عدالت اورجیل کےوسائل بچاۓ جا سکتے ھیں اور تھانہ کچہری کی سیاست ختم نہیں تو کم کی جا سکتی ھے۔
۴۔ ھم دنوں میں ھسپتال اورلیبارٹری قائم کر سکتے ھیں اوروہ بھی مفت!
۵۔ ھم اربوں روپے غریبوں کےبلئے جاری کر سکتے ھیں اورکمیٹیوں اور خزانہ کی وزارتوں سے باآسانی پاس کرا سکتے ھیں۔ قانون میں گنجائش موجود ھے۔
۶۔ ھم امریکہ اوریورپ میں چھٹیاں نہ گذارنےپر مر نہیں جائیں گے۔
۷۔ ترقی یافتہ ممالک اتنے ھی کمزور ھیں جتنے ترقی پزیر اور غریب ممالک۔ میری نظر میں ذیادہ کمزور!
۸۔ ھمارا خاندانی نظام ابھی بھی موجود اور قائم و دائم ھے۔ الحمد للہ۔
۹۔ اسکول میں جو پڑھایا جاتا ھے اس کی اصلیت کھل گئ ھے۔ بچوں کے وقت کا ضیاں کیا جاتا ھے خصوصی طور پر پرائیویٹ اسکول۔
۱۱۔ اگرھم پیسہ اسی احتیاط سے استعمال کریں تو پیسہ وافرھے۔
۱۱۔ ھم غیر ضروری طور پر کروڑوں ڈالر کا پیٹرول استعمال کرتے ھیں کو قومی خزانے اور زر مبادلہ پر بوجھ ھے۔
۱۲۔ امیر لوگ دراصل غرباء سے کمزور اور بزدل ھیں۔
۱۳۔ اشرافیہ طاقتورنہیں بلکہ کھوکھلی ھے۔
۱۴۔ ھر نیا ڈیزائنر لان کق جوڑا خریدنا ضروری نہیں۔ آپ پرانے سوٹ میں بھی گھر والوں کے لئے اتنی ھی اھم ھیں۔
۱۵۔ شوھر پارلر جاۓ بغیر بھی آپ سے محبت کرتا ھے اور اسے فرق نہیں پڑتا۔
۱۶۔ بزرگ ھمارے خاندانی نظام کی ریڑھ کی ھڈی ھیں۔
۱۷۔ میڈیا منافقت سے بھرا پڑا ھے اور اسے ذھن سازی کا مستند ادارہ نہ سمجھیں۔
۱۸۔ میرا جسم میری مرضی والے سمجھ گئے ھیں کہ ان کا جسم ان کے رب کی مرضی۔
دنیا یقیناً بدل گئ ھے مگرپاکستان ایک مثبت انداز سے بدلے اور آگے بڑھے گا انشاءاللہ۔