پاکستان کی قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی تنزلی اور ناکامی کی وجوہات پر طویل عرصے سے بات ہو رہی ہے، اور اس میں مشرق وسطیٰ کی ایئرلائنز جیسے ایمریٹس، قطر ایئرویز اور اتحاد ایئرویز کو الزام دیا جاتا رہا ہے۔ اس کی ابتداء 1980 کی دہائی سے ہوئی تھی، جب پی آئی اے کی کارکردگی میں کمی آئی اور اس کی کامیابی کے دن ختم ہوئے۔ پی آئی اے کی ناکامی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں بدعنوانی، اقربا پروری اور غیر پیشہ ورانہ انتظامیہ شامل ہیں۔
پی آئی اے کی بدحالی کا آغاز پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہوا، جب اس ادارے کو سیاسی طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ پی پی پی کے دور حکومت میں پی آئی اے کی انتظامیہ میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے واقعات سامنے آئے، جس سے ادارہ مزید کمزور ہو گیا۔ سیاسی اثر و رسوخ نے ایئر لائن کی صلاحیتوں کو متاثر کیا، اور اس کے نتیجے میں ملازمین کی بھرتی اور دیگر اہم فیصلے ذاتی مفادات کے تحت ہونے لگے۔
پی آئی اے کی ناکامی کے بعد مشرق وسطیٰ کی ایئرلائنز، جیسے ایمریٹس، قطر ایئرویز اور اتحاد ایئرویز نے اس خلا کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ ایئرلائنز اپنی خدمات، معیار اور جدید طیاروں کے ساتھ پی آئی اے سے کہیں آگے نکل گئیں۔ یہ ایئرلائنز نہ صرف بین الاقوامی پروازوں کے لیے ترجیح بن گئیں بلکہ انہوں نے پاکستانی مسافروں کے لیے بھی بہترین خدمات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ ان ایئرلائنز نے اپنے نیٹ ورک، پائیداری اور وقت کی پابندی کے ذریعے پی آئی اے کے مقابلے میں اپنی ساکھ بنائی۔
پی آئی اے کی سروسز، نیٹ ورک اور وقت کی پابندی میں کمی کا شکار ہوئیں۔ صارفین کو ایسے ایئر لائن کے ساتھ سفر کرنے کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا جو نہ صرف غیر مستحکم ہو بلکہ جس کے طیارے بھی پرانے اور غیر محفوظ ہوں؟ وقت کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے طیاروں کی حالت خراب ہوئی اور اس کی فضائی سروسز نے عالمی معیار کو برقرار رکھنے میں ناکامی کی۔ اس کے نتیجے میں مسافر دیگر ایئرلائنز کو ترجیح دینے لگے۔
پی آئی اے کی زبوں حالی میں ایک اور سنگین موڑ اس وقت آیا جب پی ٹی آئی دور حکومت میں غلام سرور خان وفاقی وزیر ہوابازی تھے اور انہوں نے کراچی میں پی آئی اے جہاز کے حادثے کے بعد پارلیمنٹ میں پائلٹ کے جعلی لائسنس کے حوالے سے بیان دیا، اس کے بعد پی آئی اے کو شدید نقصان پہنچا۔پی ٹی آئی دور حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں نے نہ صرف پی آئی اے کی مالی حالت کو مزید بگاڑ دیا بلکہ ایئر لائن کے ادارتی ڈھانچے میں بھی بے ترتیبی پیدا کی۔ ان کے فیصلوں نے ایک طرف جہاں ادارے کی کارکردگی کو متاثر کیا، وہیں دوسری طرف پی آئی اے کی ساکھ اور شہرت بھی مزید خراب ہوئی۔
اگر پی آئی اے کی موجودہ حالت میں کوئی بہتری لانا ہے تو حکومت کو اس کی اصلاح کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کی روک تھام اور پیشہ ورانہ معیار کو دوبارہ قائم کرنا ایک لازمی ضرورت ہے تاکہ پی آئی اے ایک مرتبہ پھر اپنی ساکھ بحال کر سکے۔
پی آئی اے پروازوں کی بحالی پاکستان کے لئے بڑی کامیابی ہے،سحر کامران
پی آئی اے پر پابندی اٹھنے سے پی آئی اے کی ساکھ مستحکم ہوگی،وزیراعظم
چندہ ڈالیں گے لیکن پی آئی اے خریدیں گے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
بشریٰ کا رونا اچھی حکمت عملی،گنڈا پور”نمونہ” پی آئی اے نہیں خرید رہے،عظمیٰ بخاری
پی آئی اے کی بجائے اپنے فلیٹس بیچیں، شیخ رشید
اسلام آباد ایئر پورٹ نواز شریف کے قریبی دوست کو دیا جا رہا، مبشر لقمان
پی آئی اے نجکاری،صرف 10 ارب کی بولی، کیوں؟سعد نذیر کا کھرا سچ میں جواب
پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازوں پر پابندی ختم