کرپشن کیس،جی ایچ کیو نے سزا دی، سویلین کو کیوں سزا نہیں ہوئی؟ پارلیمنٹ میں سوال آ گیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد اور مانیٹرنگ کے لئے قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں کمیٹی کے کنوینر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور خواجہ آصف کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
قومی خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور ریاستوں و سرحدی امور کی وزارت کے 1999-2000‘ 2005-06 ‘ 2006-07ءاور 2008-09ءکے آڈٹ اعتراضات پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے این ایل سی کے منافع میں حکومت سمیت تمام شیئر ہولڈرز کے حصہ کے حوالے سے پی اے سی نے ہدایت کی کہ آڈٹ ‘ فنانس‘ این ایل سی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی ایک ماہ میں اس کا حتمی فیصلہ کرکے پی اے سی کو رپورٹ پیش کرے۔
2004-05ء این ایل سی کی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے پی اے سی کو بتایا گیا کہ جی ایچ کیو کی تحقیقات کے نتیجہ میں 4 افسران کو سزا دی گئی ہے۔ آڈٹ نے کہا کہ سزا تو دی گئی مگر ریکوری نہیں ہوئی۔ نیب حکام نے کہا کہ ہمیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ این ایل سی کے نمائندے نے کہا کہ سزا یافتہ لوگوں کی پنشن اور مراعات روک لی گئی ہیں۔ یہ رقم نقصانات سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔
پی اے سی نے کہا کہ فوج کے افسران کو تو سزا دے دی گئی ہے مگر ایک سویلین شخص کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ سول شخص کے خلاف کارروائی کے لئے نیب کو ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
خواجہ محمد آصف نے کہا کہ اس سکینڈل میں بروکرز کو 38 کروڑ کی کمیشن بھی دی گئی تھی۔ این ایل سی کے نمائندے نے کہا کہ این ایل سی کو اس سرمایہ کاری میں منافع ہوا ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ این ایل سی سرمایہ کاری کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں رکھتی تھی۔ سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقی نے کہا کہ اس حوالے سے تمام ریکارڈ جی ایچ کیو میں ہے۔
پی اے سی کے استفسارپر این ایل سی حکام نے کہا کہ ہم اسی حوالے سے مزید کوشش کرتے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ فوج نے تو اپنے لوگوں کو سزا دے دی ہے مگر اس سکینڈل میں ملوث سعید الرحمن اور دیگر سول افراد کے خلاف کارروائی تو اس وقت ہوگی جب ریکارڈ ملے گا۔ پی اے سی نے سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقی کو ہدایت کی کہ 7 دنوں میں ریکارڈ کی فراہمی کے لئے خط لکھ کر ذاتی طور پر متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے اور پی اے سی کو پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔
آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ فروری 2006ءمیں این ایل سی نے جاپان پاور لمیٹڈ کے 19 فیصد حصص 11کروڑ روپے میں خریدے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ جاپان پاور لمیٹڈ 1994ءسے ٹیرف کے جھگڑے کی وجہ سے نقصان میں جارہی تھی۔ این ایل سی کا 2006ءمیں اس میں سرمایہ کاری کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔
پی اے سی نے ہدایت کی کہ معاہدے میں کون کون لوگ شامل تھے اور این ایل سی کو یہ مینڈیٹ حاصل تھا یا نہیں اور جاپان پاور لمیٹڈ کی گزشتہ تین سالوں کی بیلنس شیٹس بھی 7 دنوں میں فراہم کی جائیں تاکہ ہم سرمایہ کاری کی وجوہات کا تعین کرسکیں۔ سیفران کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی نے ہدایت کی کہ مالیاتی نظم و نسق کو ہر ممکن طریقے سے یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ این ایل سی کرپشن سیکنڈل میں ملوث 2 سابق فوجی افسران سے ان کے رینک ، میڈلز اور پنشن سمیت تمام مراعات واپس لیتے ہوئے ان افسران کو سزائیں دے دی گئیں تھیں. پاک فوج کے ترجمان ،ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ این ایل سی کرپشن سیکنڈل کی تحقیقات مکمل ہوئی تھیں اور ان کے مطابق سابق فوجی افسر میجر جنرل (ر) خالد ظہیر اختر سمیت لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر کو سزائیں دے دی گئی ہیں۔
اسوقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہنگامی بنیادوں پر کیس کا فیصلہ سنانے کی ہدایات کیں جس کے مطابق میجر جنرل (ر) خالد ظہیر اختر اور لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کو سزا سنا دی گئی ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان کو بری کر دیا ہے۔ میجر جنرل (ر) خالد ظہیر اختر کے رینک، میڈلز، اعزازات ایوارڈ اور پنشن سمیت تمام سہولیات واپس لے لی ہیں۔