پاکستان اپنے محل وقوع کی بنیاد پر دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ بحرہند پر موجود، گلف کے دہانے پر، گرم پانیوں سے جڑا تمام شمالی ممالک کیلئے حسرت بنا کم سے کم فاصلہ، آسان تجارتی راستہ جہاں سے تمام دنیا کیساتھ رابطہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سرزمین کی طرف دنیا کی اقوام اپنے نکتہ نظر سے رویہ بھی اپنائے ہوئے نظر آتی ہیں۔ یاد رہے کہ شاہراہ ریشم جو مشرق میں ممالک کیساتھ تجارت کا اہم ترین راستہ صدیوں سے مانا جاتا ہے اور تمام مغربی اقوام استعمال کرتی رہی ہیں، اب سی پیک کے ذریعہ جوڑ کر سمندری تجارت کو مزید آسان کرے گا۔ یوں دوطرفہ تجارت اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ بھارت اب تک اپنی منڈی یعنی اپنی آبادی کی وجہ سے تاجروں کیلئے دلچسپی کا مرکز تھا، لیکن شمال مشرق میں چین کی آبادی جو بھارت سے کہیں زیادہ ہے، بہت دشوارگزار راستہ کی وجہ سے کسی ملک کی دسترس میں نہ رہ سکا۔ البتہ سی پیک اسی سلک روٹ کو آسان ترین راستہ بنا کر سمندری راستہ سے جوڑ کر عالمی منڈیوں تک رسائی دینے کی صلاحیت بناتا ہے۔
سی پیک بنتے ہی، گوادر پورٹ کی اہمیت کے پیش نظر یقین ہے کہ یہ دنیا کی تمام بندرگاہوں کے مقابلہ میں اول مقام حاصل کر لے گا۔ اس طرح دبئی کی بندرگاہ جو اس وقت بین الاقوامی سطح پر مقبول ہے تمام سمندری جہازوں کیلئے، اپنی مقبولیت کھو دیگا یا کم از کم موجودہ اہمیت قائم نہ رکھ سکے۔ یہ چیز عرب ممالک کیلئے سوحان روح ہے۔ تجارت ہی دنیا میں سب کیلئے سیاست، معیشت، جنگوں اور تعلقات کی بنیاد رہی ہے۔
جہاں ایک طرف سی پیک پاکستان کی معیشیت کو مضبوط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہیں بھارت کا سکون برباد کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت کی ہر ممکنہ کوشش رہی ہے کہ ایک طرف عربوں کو پاکستان کے خلاف ابھارے، دوسری جانب ایران میں سرمایہ کاری کے ذریعہ ایران کو پاکستان سے دور رکھے، تیسری جانب افغانستان کے راستے بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور قریبا” تمام پاکستان میں ابتری پھیلاتے ہوئے پاکستانی عزائم کو خاک میں ملانے کی ہر ممکنہ کوشش کر چکا ہے۔ اس کے مقابلہ میں پاکستانی کردار نہ صرف قابل ستائش بلکہ بہت مدبرانہ اور صبر آزما رہا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی بدلتی صورتحال نے تو سونے پر سہاگہ والی کیفیت پیدا کر دی کہ بھارت کی تمام سرمایہ کاری جو افغانستان میں پچھلی دو دہائیوں میں ہوئی تھی وہ یک لخت طالبان کے قبضہ میں چلی گئی۔ طالبان کے طاقت حاصل کرتے ہی وہاں سے بھارت کو اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑ رہا ہے۔ پنجشیر کی وادی واحد بھارت کی امید رہ گئی ہے جسے اس وقت طالبان نہ تو وقعت دے رہے ہیں اور نہ ہی اس طرف توجہ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے، پنجشیر میں قابض جتنی دیر کریں گے طالبان سے آن ملنے میں، اتنا نقصان کا اندیشہ قوی تر ہوتا جائے گا۔
حالیہ کابل کے ائرپورٹ پر دھماکوں کی ذمہ داری گرچہ داعش نے قبول کرلی ہے لیکن اب تو دنیا میں شور مچ گیا ہے کہ داعش کی اس کاروائی کی پشت پر بھارت کا ہاتھ ہے۔ اگر نظر عمیق ڈالی جائے تو سوائے بھارت کے ایسی کاروائی کوئی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو پر امن افغانستان درکار ہے، امریکہ اپنے معاہدے کا پابند ہے اور انخلاء کو وقت پر مکمل کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو بچانے کیلئے عجلت میں افغانستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ بھی غلط نہیں کیونکہ امریکہ ماضی قریب میں روس کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ رہ گئے طالبان جو ہر لمحہ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ اور تمام غیرملکی افواج انکی سرزمین چھوڑ دیں۔ واحد بھارت رہ جاتا ہے جسے افغانستان اس وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر غشی کے دورے پڑ سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے بھارت کی بچھائی بساط مکمل طور پر لپیٹ نہیں دی گئی بلکہ تباہ ہو چکی ہے اور ساتھ ہی معیشت کو ایک ناقابل برداشت نقصان پہنچ چکا ہے۔
یہ سی پیک پاکستان کو مستقبل میں بہت کچھ دے سکتا ہے۔ یہ تو ابتدا ہے ابھی منصوبہ کی، کہ دنیا پوری طرح سے پاکستان کی جانب متوجہ ہے، جب مکمل ہو گیا تو پاکستان دنیا میں منفرد مقام کا حامل ہوگا۔
اس تمام صورتحال میں پاکستانی افواج اور اداروں کی کارکردگی بہت اہم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ادارے عام حالات سے زیادہ چوکنْا اور چاق و چوبند ہیں۔ افواج کے سالار ہمہ وقت افواج پاکستان کو تیار رکھے ہوئے ہیں کہ کسی بھی غیر یقینی اور ناپسندیدہ حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر عوام کو ایک متحد قوم کے طور پر ابھرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر ملنے والی ہر بات سچ نہیں ہو سکتی۔ بعض چھوٹ واقعات جو عموما” تمام ممالک میں پیش آتے ہیں انہیں ضرورت سے زیادہ یہاں پذیرائی نہیں دینا چاہئیے کہ اس سے عوام میں بےچینی اور خوف پھیلنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس سے قوم میں اختلافات اور تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے جو پاکستان کیلئے اچھا نہیں۔
آئیے مل کر پاکستان کو خوبصورت اور قوم کو باوقار بنائیں۔
پاکستان زندہ باد
لاہور
٢٩ اگست ٢٠٢١ء