دفاع ناموس صحابہ پر قربان بقلم: عبدالرحمن ثاقب سکھر

دفاع ناموس صحابہ پر قربان

بقلم: عبدالرحمن ثاقب سکھر

اسلام کی شان و شوکت اور عظمت سے خائف ہوکر یہودیوں نے اسلام کی پھیلتی ہوئی دعوت روکنے کے لئے ابن سبا یہودی کو مسلمانوں میں داخل کیا جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حب اہل بیت کا نعرہ لگایا اور اس کے بعد اہل ایمان کو جن حالات سے گزرنا پڑا وہ تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی، سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کی شہادت کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اس قتل و غارت گری اور فساد فی الارض کے پیچھے فارسی و النسل شیاطین نہیں نظر آئیں گے۔

امیرالمومنین خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق کی شہادت مدینہ منورہ میں ہوتی ہے اور قاتل ابولولو فیروز مجوسی سے کی لاش ایران میں لا کر دفن کر دی جاتی ہے اور آج بھی اس پر ایک عظیم الشان عمارت ایستادہ ہے جو اس قتل کے محرکین کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اس مجوسی اور فارسی نسل نے ہمیشہ سے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام اور اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھا جو کہ معیار ایمان اور معیار حق ہیں۔ ان کے لیے اللہ تعالی نے کلمہ تقوی کو لازم قرار دیا تھا اور ان کی جانی و مالی قربانیاں دیکھ کر، ان کے جذبہ ایثار اور اسلام کے لیے مرمٹنے کے عزم کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے جنت کے سرٹیفیکیٹ عطا فرما دیے تھے۔

ان مجوسیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سے سے اصحاب رسول کی ذات اور شخصیات کو نشانہ بنا کر درمیان سے نکال دیا جائے تاکہ اسلام کے روشن اور چمکدار چہرے کو کو نہ صرف داغ دار کیا جاسکے بلکہ اسلام کی عمارت ہی گرا دی جائے لیکن اہل ایمان نے ہمیشہ سے ان کا مقابلہ کیا۔ ان کی بد زبانی اور گستاخیِ کا جواب متانت و سنجیدگی سے باوقار انداز میں علمی طور پر دیا اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کا دفاع کیا اور تا قیامت کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ

روافض کا گروہ سمجھتا ہے کہ ہر اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا جائے جو دنیا کے افضل ترین لوگوں یعنی صحابہ کرام کی عظمت کا پھریرا لہراتا ہے اور تحریری و تقریری یا کسی بھی طرح سے صحابہ کے دفاع کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

ہم ماضی قریب میں جا کر دیکھتے ہیں تو مولانا حکیم فیض عالم صدیقی، شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر، مولانا حبیب الرحمٰن یزدانی اور ان کے رفقاء، مولانا حق نواز ، مولانا ایثار الحق قاسمی، مولانا اعظم طارق شہید رحمہم اللہ علیہم اجمعین کو چن چن کر شہید کیا گیا اور دفاع ناموس صحابہ کی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

گذشتہ روز مولانا ڈاکٹر عادل خان کو شاہ فیصل کالونی کراچی میں ان کے ڈرائیور سمیت قتل کر کے شہید کر دیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں حکومتی سرپرستی میں افضل الناس بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے بدزبانی کرنے والے ذاکر آصف رضا علوی اور دس محرم کو کراچی کی مشہور شاہراہ بند روڈ پر کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ اور خسر رسول سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے بدزبانی اور گستاخی کرنے والوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کے لیے علمائے کرام، مشائخ عظام اور دینی تنظیمات کے ذمہ داران کو بہت متحرک کیا اور اس کے لیے تحریک کھڑی کی۔

کراچی میں اہل سنت کے تینوں مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث نے عظمت صحابہ کرام ریلیاں نکالیں پھر اس تحریک نے ملک کے دیگر بڑے شہروں اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد ودیگر شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے اور ریلیاں نکالیں۔ 13 اکتوبر 2020 کو قائد علامہ پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی قیادت میں گوجرانوالہ میں عظیم الشان عظمت صحابہ کرام ریلی نکالی جارہی ہے۔

حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ملکی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے اور ان کے لیے مناسب سکیورٹی کا انتظام کرے لیکن یہ حکومت فرقہ واریت کو ہوا دے کر اور ملک میں فرقہ وارانہ قتل اور غارت گری کروا کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔حکومتی وزرا سیکیورٹی یا دیگر مسائل پر توجہ دینے کے بجائے پہلے سے ہی قتل و غارت کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں اور اپنی نااہلی اور نالائقی پر تصدیق کی مہر ثبت کر رہے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کیے پڑوسی ملک پر ڈال دیتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران نیازی نے اس قتل کی ذمہ داری بھارت پر ڈال دی ہے۔ حالانکہ اس بارے نہ کوئی تحقیق اور تفتیش ہوئی اور نہ ہی قاتل پکڑے گئے۔

بلکہ اس کیس سے جان چھڑانے کے لئے اپنے پیش رو حکمرانوں کا وطیرہ اپناتے ہوئے بھارت پر قتل کی ذمہ داری ڈال دی دنیا جانتی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے ہمیشہ سے ایران کا ہاتھ رہا ہے۔ وہ اپنے غلط نظریات کو پھیلانے کے لئے فرقہ وارانہ لٹریچر بھیجنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان بھیجتا رہا ہے اور ان کی مالی مدد بھی کرتا ہے۔ ایران کی پاکستان دشمنی کی مثال بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو بھی پاکستان میں موجود ہے جو کہ ایران کے ویزے پر پاکستان آکر دہشت گردی کرواتا رہا اور اس کو ایران کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔

ہمارا صوبائی و وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے مقتدر اداروں سے مطالبہ ہے ہے کہ پاکستان کی واضح سنی اکثریت کے مطالبات پر فوری توجہ دی جائے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔

ڈاکٹر عادل خان شہید کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور غیرجانبدارانہ تحقیق کر کے ان کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکا جاسکے۔ کیونکہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو دوسرا ملک شام بنا دیا جائے۔ لیکن ملک کے پرامن مسلمان شہری ہر صورت میں ملک میں امن و امان اور سکون چاہتے ہیں تاکہ پاکستان جنت نظیر رہے۔

Comments are closed.