ڈاک، سندیسا، پوسٹ ،تحریر:محمد عتیق گورائیہ

ماضی میں ہم نے ایک گانا سنا تھا جو جاوید اختر نے لکھا تھا جس کے الفاظ تھے
؎ سندیسے آتے ہیں ہمیں تڑپاتے ہیں
جوچٹھی آتی ہے، وہ پوچھے جاتی ہے
سندیسا اصل میں سنسکرت کے لفظ سندیش سے ہے جو کہ پراکرت میں آکر سندیس ہوگیااور اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اس سے مرادپیغام، خبر اور اطلاع ہے۔چٹھی جو کہ سنسکرت زبان کے”چتر”اور”اکا“ سے ماخوذ ہے۔چٹ،پرچی،خط، مراسلہ،رقعہ،پتر،مکتوب،سندکارگزاری،اجازت نامہ، پاس، پرمٹ اور لیبل جیسے الفاظ چٹھی کے مترادف سمجھے جاتے ہیں۔کسی دور میں جب کسی کے گھر چٹھی آتی تھی تو غمی اور خوشی کے ملے جلے جذبات دیکھنے کو ملتے تھے اور جب تک وہ چٹھی پڑھا ئی نہیں جاتی تھی سکون نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایسے میں اکثر وبیشتر چٹھی رساں ہی چٹھی کو پڑھنے کا فریضہ سرانجام بھی دیا کرتا تھا کہ اس دور میں پورے گاؤں میں یا تو امام مسجد پڑھ سکتا تھا یا پھر اسکول کا استاد۔چٹھی سے ہی چٹھی بہی لفظ بنا جس سے مراد خطوط کی آمد وروانگی درج کرنے والا رجسٹر ہوتا ہے، چٹھی چپاتی یا پتر بھی ہے جس سے مرادلکھت پڑھت ہوتا ہے،چٹھی سند بھی لفظ تھا جس سے مرادصداقت نامہ یا انگریزی لفظ سرٹیفیکیٹ ہے اور چٹھی کا کھیل بھی ہے جس کا مطلب قرعہ اندازی اور لاٹری سمجھ لیجیے۔ایک کہاوت بھی ذہن کے کسی گوشے میں موجود ہے ”چٹھی نہ پروانہ مار کھائیں ملک بیگانہ (حکومت کی بدانتظامی سے بدمعاش خواہ مخواہ لوگوں کو لوٹتے پھرتے ہیں)۔اس کہاوت کو اپنی حکومت پر نہ رکھ چھوڑئیے گا کیوں کہ اپنا ملک تو سفید ہاتھی ہے جس کو ماسواے معدودے لوگوں کے اکثرنے شروعات سے ہی لوٹنا شروع کردیا تھا اور لوٹ بھی وہی رہے ہیں جنھوں نے قوانین پر عمل درآمد کروانا تھا۔چھوٹے موٹے راہ زن تو اپنی راہ ہی کھوٹی کررہے ہیں کیوں کہ چند پیسوں کی خاطر وہ دنیا کے بھی مجرم بن رہے ہیں اورآخرت کے بھی۔ملکی خزانے لوٹنے والے تو عیش وعشرت سے زندگی گزار رہے ہیں اور ہزاروں لوٹنے والا پولیس کے ہاتھوں سرراہ مبینہ مقابلے میں مارا جارہا ہے۔ملکی خزانوں کو لوٹنے والوں کا معاملہ روزآخرت پر رکھتے ہیں۔آپ اظہر نیر کا شعر ملاحظہ کیجیے
؎تھی اس کی بند مٹھی میں چٹھی دبی ہوئی
جو شخص تھا ٹرین کے نیچے کٹا ہوا
ڈاک خانہ ہماری زبان میں اس طرح سے آیا ہے کہ آج بھی اسے سنا، پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے اگرچہ اس کے متبادل پوسٹ آفس لفظ زیادہ مستعمل ہے۔لفظ ”ڈاک“ پراکرت کے لفظ ”ڈک“ سے نکلا ہے جس کے مترادف الفاظ سلسلہ،برید،تسلسل،تواتر،پوسٹ،چوکی اور متلی وغیرہ ہیں۔ڈاک کا مطلب خط وغیرہ موصول اور روانہ کرنے کا نظام ہے۔چٹھیوں کے تھیلے کو بھی ڈاک کہا جاتا ہے۔جابجا سواری کا نظام مراد گھوڑوں یا پالکی کی چوکی جو سڑک پر مسافروں وغیرہ کولے جانے کے لیے کی جاے۔ویسے لفظ ڈاک سے مراد بندرگاہ کا ایک حصہ بھی ہے جہاں جہاز آکر ٹھہرتے ہیں۔
؎کیا لکھوں حال تباہ اپنا کہ سودا وہ جو لوگ
چاہتے تھے یہ دن ان کے یاں سے واں تک ڈاک ہے
ڈاک سے بواپسی ڈاک بھی بنایا گیا جس سے مراد خط ملتے ہی یاپہلی ڈاک سے ہے۔ محکمہ ڈاک، محصول ڈاک،ڈاک ایڈیشن،،ڈاک بجلی(ٹیلی گراف)،ڈاک بہنگی، ڈاک پالکی، ڈاک پرچی اور ڈاک چوکی وغیرہ جیسے الفاظ اسی ڈاک سے جوڑ کر بناے گئے ہیں۔ پراکرت کے اسی لفظ ڈاک کے ساتھ فارسی کا خانہ لگاکر ڈاک خانہ بنایاگیا جو کہ یہاں پر ظرفیت کا معنی دیتا ہے جیسے باورچی خانہ، شراب خانہ ویسے ایک لفظ ڈاک گھر بھی موجود ہے جوکہ پراکرت کے دو لفظوں ”ڈاک“ اور ”گھر“ کو ملا کربنایا گیا ہے۔شیخ محمد عبداللہ کی سوانح عمری ”آتش چنار“کے صفحہ نمبر 391پر لکھا ہوا ہے ”پاکستان کے قیام پر سری نگر کے ڈاک خانہ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا“۔اب آئیے لفظ پوسٹ آفس کی طرف جو کہ دو لفظوں پوسٹ اورآفس سے مل کر بنا ہے۔لفظ Post کا مطلب کھمبا، ستون،کھونٹا،عہدہ، اسامی،تقرراورڈاک کا نظام وغیرہ ہے۔پوسٹ آفس کو عربی میں مکتب البرید،ترکی میں Postane اور فارسی میں ادارہ پست کہتے ہیں۔میری معلومات کے مطابق پوسٹ آفس کا لفظ پہلی بار اردو میں معرکہ چکبست و شرر میں ملتا ہے۔اسی سے پھر ڈاکیا پوسٹ مین بن گیا۔ لفظ پوسٹ لاطینی زبان میں بطور سابقہ اور بہ معنی پیچھے یا مابعد کے بھی مستعمل ہے جیسے پوسٹ گریجوایٹ اور اب اگر پوسٹ مارٹم پر غور کیا جاے تو معلوم ہوگا کہ مرنے کے بعد نعش کے طبی معائنہ یا تجزیہ کرنے کو پوسٹ مارٹم کہتے ہیں۔مارٹم بھی لاطینی زبان سے ہی انگریزی میں آیاہے۔پوسٹ باکس،پوسٹ بواے،پوسٹ بیگ،پوسٹ پارسل،پوسٹ کارڈ اورپوسٹ ماسٹرجیسی ان گنت اصطلاحات اب ہمارے ہاں موجود ہیں۔اردو زبان کی یہی خوبی ہے جو اسے بین الاقوامی زبانوں کے درمیان لاکھڑا کرتی ہے کہ یہ زبان مختلف زبانوں کے لفظوں کو اس قدر خوب صورتی سے اپنے اندر سموتی ہے کہ وہ لفظ اس کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔

Leave a reply