ہرن کے بھاگنے کی رفتار 85 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جبکہ شیر 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتا ہے۔ اتنا تیز بھاگنے کے باوجود بھی ہرن شیر سے نہیں بچ پاتا اور شیر ہرن کا شکار کر ہی لیتا ہے.کیونکہ ہرن کے دل میں پکڑے جانے کا مارے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ ہرن کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ شیر اس سے زیادہ طاقتور ہے یہ مجھے مار سکتا ہے۔اس لئے وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا رہتا ہے اور اس کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ جب ہم ڈرتے ہیں تو اتنا بھی نہیں کرپاتے جتنا ہم آسانی سے کرسکتے ہیں۔ڈر ہمیں کمزور کردیتا ہے, ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ہماری صلاحیتوں کو کھا جاتا ہے۔ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ایک طالبعلم کو فیل ہونے کا ڈر ہوتا ہے امتحان میں کم نمبر آ گئے تو کیا ہوگا۔لوگوں کی باتوں کا ڈر ہوتا ہے والدین کی ناراضگی کا ڈر ہوتا ہے۔دوستوں، رشتہ داروں میں عزت کا جنازہ نکلنے کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ جب بھی کتاب لے کر پڑھنے کے لیے بیٹھتا ہے تو یہ سارے ڈر اور خدشات اس سے گھیر لیتے ہیں۔جب وہ ڈر ڈر کر پڑھے گا تو کیا خاک پڑھ پائے گا اسکے اندر کا خوف اس سے کبھی بھی اچھے مارکس نہیں لینے دے گا۔ جو کھلاڑی ڈرتا یے وہ کبھی اچھا نہیں کھیل سکتا جس کو آوٹ ہونے کا ڈر ہوگا اس کا دھیان کبھی کھیل کی طرف جائے گا ہی نہیں،اونچی شاٹ کھیلی تو کہیں آوٹ نہ ہوجاوں جو کھلاڑی یہ سوچے گا وہ کبھی چھکا نہیں مار پائے گا۔ڈر لگتا تو سب کو ہے لیکن سب لوگ نہیں ڈرتے کچھ لوگ ڈرتے ہیں اور کچھ لوگ اس ڈر پر قابو پا لیتے ہیں۔ ڈر پہ قابو پانا سیکھ جاتے ہیں اور وہی لوگ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ ڈر پہ قابو پالیتے ہیں وہ ایسا کیا کرتے ہیں کیسے ایسا کرلیتے ہیں۔ناکامی کا ڈر اور کامیابی کا یقین دو بھیڑیے ہیں جو ہر انسان کے اندر موجود ہیں۔ ناکامی کا بھیڑیا ہمیں ڈراتا ہے کہ کہیں فیل نہ ہوجاوں فیل ہوگیا تو کیا ہوگا۔ یہ ناکامی کے ڈر کا بھیڑیا ہے اور دوسرا بھیڑیا کامیابی کا یقین دلاتا ہے کہ ضرور کامیاب ہونگے۔ حالات اتنے بھی برے نہیں تیاری اتنی بھی خراب نہیں فکر نہ کرو ہمت کرو۔ یہ بھیڑیے ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں بڑے ہوتے ہیں اور مرنے تک ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ناکامی کا ڈر ہمیشہ کامیابی کے یقین کے ساتھ لڑتا رہتا ہے اور کوئی ایک ہی ان میں سے جیت پاتا ہے۔ جیت ہمیشہ اس بھیڑیے کی ہوتی ہے جس کو ہم کھلاتے پلاتے رہتے ہیں جس کی پرورش کرتے ہیں جس کو پالتے ہیں جس کو طاقتور بناتے ہیں۔ ڈر کو پالیں گے تو ڈر جیت جائے گا اور یقین کو پالیں گے تو وہ ڈر کو چیر پھاڑ دے گا۔ ڈر کی سب سے اچھی خوراک ہوتی ہے اس کے بارے میں سوچتے رہنا اس کا ذکر کرتے رہنا اس سے ڈسکس کرتے رہنا اور یہی چیز ڈر کو طاقتور بناتی ہے۔ جب آپ کتاب لے کر بیٹھتے ہیں اور سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ کہیں فیل نہ ہوجاوں تو آپ اپنے ڈر کے بھیڑیے کو کھانا کھلا رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے دوستوں سے بات کررہے ہوتے ہیں کہ کورس بہت زیادہ ہے اور وقت بہت کم رہ گیا ہے بہت مشکل ہے تو آپ ڈر کے بھیڑیے کو مضبوط اور طاقتور کررہے ہوتے ہیں جب آپ ڈر کو مضبوط کروگے پھر ڈر تو لگے گا۔
ڈر سے جان چھڑانی ہے تو ناکامی اور ڈر کے بھیڑیے کو کھلانا پلانا بند کرنا ہوگا اس سے کمزور کرنا ہوگا۔ خود پر یقین رکھیں جو وقت برباد ہوگیا وہ تو گزر گیا ہے لیکن جو وقت آپ کے پاس ہے اسکو استعمال کریں۔ انسان کے ہاتھ میں کوشش کرنا ہے، نتیجے کا سوچنا چھوڑ دیں۔ اس بات پہ یقین رکھیں کہ کی گئی محنت کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا اس کا پورا پورا صلہ ضرور ملے گا.
ناکام ہونے کا فیل ہونے کا سوچنے کیبجائے کامیاب ہونے کا سوچیں کیوں ڈریں کہ زندگی میں کیا ہوگا ہر لمحہ کیوں سوچیں کہ کچھ برا ہوگا۔ خود پر یقین کرکے چلیں تو ایک نہیں ہزار راستے آپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ مشکلوں سے ڈر کر کبھی ہمت نہ ہاریں بلکہ زندگی کو اپنے ہاتھوں سے سنواریں۔ جیتنا چاہیں گے تو جیت ملے گی ہار کا ڈر لے کر کبھی زندگی نہ گزاریں۔زندگی میں ہر روز کچھ نیا سیکھیں کچھ نیا کریں کچھ نیا سوچیں۔
tweets @KharnalZ