درس کربلا تحریر : انجینیئر مدثر حسین

0
29

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد واقعہ کربلا تاریخ کی اولین قربانیوں میں سے ایک ایسی قربانی ہے جو اپنے پچھلے واقعات کی طرح بہت سی باتیں تاریخ کے اوراق میں؛ قم کر گیا.
حق کے لیے قربانی کا سلسلہ ازل سے چلتا آ رہا ہے لیکن یہ قربانی اپنی نوعیت کی الگ ہی قربانی ہے. جس میں جدائی قربانی _ یوسف کی طرح عارضی جدائی کا امتحان کا درد یا بیٹے کی گردن کی جگہ دنبہ کی قربانی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں سارا کنبہ اللّٰہ کریم کی راہ میں نچھاور کر دیا گیا. بلاشبہ موضوع اتنا حساس ہے کہ کسی بھی واقع کی حقیقت میں کمی یا موازنہ مقصود نہیں صرف اور صرف قربانی کی تاریخ سمجھانے کے لیے ان واقعات کا تزکرہ کیا گیا ہے.
اس قربانی کے واقعات تو اکثر ملتے ہیں لیکن اس سے سبق کیا ملتا ہے اس بات کو سمجھنا وقت کی ضرورت ہے. کیونکہ کسی بھی مقصد کے بنا قربانی کو سمجھنا اس کی اصل کو رائیگاں کر جاتا ہے جو کہ صریح غلط ہے. اور اس قربانی کی ادب کی خلاف بھی ہے.
یہاں سے جو سوالات اٹھتے ہیں ان میں سے ایک کا تزکرہ کرتے ہیں
قربانی کی انتہا کیا ہے؟
جب دین کو ضرورت ہو تو انسان کی سب سے پہلی ترجیح اسلام کی روایات اور احکامات کی تکریم ہے. من و عن ان لر سر تسلیم خم کا جزبہ ہے. جس سفاکیت سے کنبہ اہل بیعت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو باری باری شہید کیا گیا یہ اس بات کی علی الاعلان گواہی ہے دین کی حفاظت کے لیے اپنے وجود سے منسلک ہر رشتے کا درد بھی سینے پر سہنا پڑے سہا جاے لیکن دین سے کسی صورت انحراف نا کیا جاے. جناب نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ میدان کربلا میں کر دکھایا ایک ایک کر کہ جان سے پیارے نچھاور ہوتے رہے لیکن شعائر اسلام سے ایک انچ بھی مصالحتی پالیسی نہیں اپنای. بس جو احکام رب العالمین ہیں اور اس میں جو حدود ہیں انہیں پر قائم رہنے کا درس دیا.
قربان جائیں تربیت نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تربیت سیدہ فاطمہ الزہراء اور شجاعت حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیا خوبصورت تربیت گاہ تھی دو پھول دونوں دین پر ایک سے بڑھ کر ایک نچھاور ہوے لیکن دین اسلام پر آنچ نہ آنے دی. عشق اپنی پہچان رکھتا ہے. جب رب العالمین سے ہو جائے تو پھر کربلا میں کٹتے جگر کے ٹکڑے بھی رب العالمین کے حضور عاجزا پیش کر دیے جاتے ہیں.اس قربانی سے ہمیں ایک درس یہ بھی ملتا ہے کر زندگی کا اختتام بھی بندگی رب العالمین پر ہو. لب پر قرآن کریم کے الفاظ ہوں اور سر رب العالمین کی بندگی میں ہو. واہ کیا کمال عشق تھا کتنی خوبصورتی سے اپنے رب العالمین سے وفا کر گیا. پہلے ایک ایک کر کے کنبہ لٹایا پھر اپنے سینے پر زخم کھاے اور جب جان نکل رہی زکر اللہ کریم کی سب سے پیارے کلام کا سر اسی کے سامنے سجدے میں اور دل میں عشقِ رب العالمین کا سمندر لیے عشقِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ؛ للہ رب العالمین کے حضور پیش کیا گیا.اس عظیم قربانی سے ملنے والے درس کو آج سمجھنے کی ضرورت ہے. کہ جب حکم رب العالمین آ جاے تو مال جان اولاد سب کی حیثیت ثانوی اور دین اسلام کی سر بلندی اولین ترجیح ہونی چاہیے. زندگی آخری دموں پر آ جاے تب بھی دل میں چراغ عشق رب العالمین روشن تعلیمات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے جسم کا رواں رواں معطر ہو سر رب العالمین کے ہر حکم پر تسلیم خم ہو اور رعح پرواز کر جاے.

@EngrMuddsairH

Leave a reply