"ڈان ڈاٹ کام ” اپنے ہی ملازمیں سے ہاتھ کرنے لگا، پروڈیوسر کو آنکھ کے آپریشن کے لئے سود پر قرضہ دے دیا
کراچی:”ڈان ڈاٹ کام ” اپنے ہی ملازمیں سے ہاتھ کرنے لگا، پروڈیوسر کو آنکھ کے آپریشن کے لئے سود پر قرضہ دے دیا،تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سب سے معتبر انگریزی اخبار کے ڈیجیٹل ورژن ڈاٹ کام کو پچھلے کئی سالوں سے دفتر کے انتہائی خراب ماحول کی وجہ سے مختلف الزامات کا سامنا ہے، جس میں دفتر کے عملے کو ڈرانا، دھمکانا اور زبردستی ان کی ہمت سے زیادہ کام لینا حتیٰ کہ ان کو اتنا پریشان کرنا کہ وہ استعفیٰ دے کر کسی دوسری جگہ پر جانے پر مجبور ہو جائیں جیسے الزامات شامل ہیں۔
پاکستان میں انگریزی کے سب سے معتبر روزنامہ ڈان کے ڈیجیٹل ورژن ڈاٹ کام میں کام کرنے والے ملازمین کو 2014 سے ایڈیٹرز کی جانب سے تنگ کر نے کاسلسلہ تب سے شروع ہوا ہے جب سے ڈان ڈاٹ کام کے سابق ایڈیٹر مصدق سانول کے انتقال کے بعد جہاں زیب حقی نے ذمہ داریاں سنبھالیں۔
ڈان ڈاٹ کام کے سابق ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہوئے نارواسلوک کو بیان کرنے کا سلسلہ تب سے جاری ہے جب سے ڈان ڈاٹ کام کے لیے کام کرنے والی حرمت ماجد نے اپنے ساتھ ہوئے ناروا سلوک کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے واقعات شیئر کئے۔
https://twitter.com/MajidHurmatKhi/status/1272071784473526272
حرمت ماجد نے اپنے ساتھ ہوئے ناروا سلوک کے بارے میں اپنے واقعات شیئر کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ” دفتر ان سے اس چیز کی امید رکھتا ہے کہ کام کے دوران کوئی غلطی نہ کریں ، چھٹی نہ مانگیں اور فضول باتوں پر غصہ بھی نہ کریں بس ایک روبوٹ کی طرح کام کرتے ہوئے خود کو مارتے ہوئے بس ہمارا کام کرتے رہو”۔
ماجد حرمت کے اس ٹویٹ پر ان کو فالو کرنے والے لوگوں نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر کی جانب سے اپنائے گئے جارحانہ انداز پر مایوسی کا بھی اظہار کیا۔
Worried about my ex-colleague Hurmat & proud of her for having the courage to speak out. I know, having worked at Dawn (dotcom) the environment there is *extremely* toxic. Sadly, it comes from the top. I fancied myself as a happy dude, but it broke me down. https://t.co/07KusgahfF
— Hasham Kabir Cheema (@HashamKabir) June 15, 2020
حرمت ماجد کی طرح ڈان ڈاٹ کام کے سابق ملازم ہشام کبیر چیمہ نے حرمت ماجد سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ” وہ حرمت کے لئے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے کھل کر اس معاملے پر بات کرنے پر بھی فخر محسوس کر رہے ہیں، ہشام نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ دفتر کا ماحول انتہائی آلودہ ہو چکا تھا”۔
ڈان ڈاٹ کام کے سابق ملازم ہشام نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں اپنے جاری پیغام میں لکھا کہ ” ڈان ڈاٹ کام میں ایک سال تک غلامی کرنے کے بعد مجھے میرے ایڈیٹر جہاں زیب نے کہا کہ میں ایک انٹرنی سے بھی بدتر کام کرتا ہوں، اسی سال کے آخر میں میں نے آگاہی صحافی کا ایوارڈ جیتا جس نے میرے حوصلے بلند کیے اور میں نے ڈان ڈاٹ کام کو چھوڑ کر الجزیرہ میں کام کرنا شروع کر دیا، لیکن میں پاکستان میں رپورٹنگ کو بہت یاد کرتا ۔”
حرمت ماجد کے ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سلمان حیدر کا اپنے ٹویٹ میں لکھنا تھا کہ ” مجھے زندگی میں جن چند باتوں پر ندامت ہے ان میں سے ایک ڈان میں اپنے ایڈیٹر آزاد قلمدار سے رابطے میں نہ رہنا ہے۔ آزاد کینسر کا شکار ہوئے ڈان کی طرف سے کوئی میڈیکل سہولت نہ دی گئی کام پر آنے ہر مجبور کیا جاتا رہا اور پھر نوکری سے نکال دیا گیا۔ آزاد اس کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے”۔
https://twitter.com/fzehran/status/1272630628387901440
ڈان ڈاٹ کام کے ایک سابق ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کے تھرڈ پارٹی ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ سے اپنی آنکھ کے آپریشن کے لئے 25 ہزار روپے کا قرضہ لیا تو ان کی جانب سے میری تنخواہ میں سے تین ہزار روپے سود کے طور پر کاٹ لیے گئے۔
All the articles coming from @dawn_com about mental health, women issues, labour laws, almost none of them is followed within the organization. Employees are often preferentially treated based on class, ideology and closeness to the management. https://t.co/s8ousizS5q
— Bilal Karim Mughal ✨ 🇵🇰 (@bilalkmughal) June 15, 2020
ڈان ڈاٹ کام پر الزامات کے ٹویٹ جب فیس بک کے ڈیجیٹل جرنلسٹ گروپ پر شیئر کئے گئے تو ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر جہانزیب حقی نے اس تمام معاملے کے حوالے سے لکھا کہ وہ فی الحال اس معاملے کو دفتری سطح پر دیکھ رہے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر اس کا ردعمل دینا میں ابھی مناسب نہیں سمجھتا۔
https://twitter.com/fzehran/status/1272630628387901440
Really triggered by this thread. Struggling to find the right words to explain what some colleagues and I went through at the same workplace. The tactics they used to bully people, especially the ones who had no options of leaving, was another level of sick. https://t.co/VkDCoEiief
— Ema Anis (@EmaAnis) June 16, 2020
Really triggered by this thread. Struggling to find the right words to explain what some colleagues and I went through at the same workplace. The tactics they used to bully people, especially the ones who had no options of leaving, was another level of sick. https://t.co/VkDCoEiief
— Ema Anis (@EmaAnis) June 16, 2020
Never too late. Folks still out there working in those conditions.
— Hasham Kabir Cheema (@HashamKabir) June 15, 2020