کروناوائرس :چین میں ہلاکتوں کی تعداد811 ہوگئی،36ہزارسے زائد شدید متاثر،چینی فوج بھی ہسپتالوں میں پہنچ گئی

بیجنگ : کروناوائرس :چین میں ہلاکتوں کی تعداد811 ہوگئی،36ہزارسے زائد شدید متاثر،اطلاعات کےمطابق چین میں کروناوائرس سے مجموعی طور پرہلاکتوں کی تعداد811ہوگئی ہے جبکہ متاثر ہونے والوں کی تعداد36ہزارسے تجاوز کرچکی ہے۔

تفصیلات کےمطابق چین میں اس نئےوائرس کےمزید 86 نئے کیسز سامنے آگئے ہیں ،صوبہ ہوبئی میں کرونا وائرس کے2147 نئے کیسزرپورٹ ہوئے ہیں ۔ جس کے بعد مجموعی طور پر چین میں مہلک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 36 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ۔ چین میں 2003 میں سارس بیماری کے سبب 774 افراد ہلاک اور آٹھ ہزار ایک سو متاثر ہوئے تھے۔

چینی سرکاری میڈیا کے مطابق کہ ایک چینی نوزائیدہ بچے میں پیدائش کے صرف 30 گھنٹوں بعد نئے کرونا وائرس کی تشخیص کی گئی ہے ، جو اب تک کا سب سے کمسن کیس ریکارڈ کیا گیا ہے . بچے کی پیدائش کے وقت اسکی والدہ میں کرونا کی تشخیص ہوئی تھی ۔مہلک وائرس سے زیادہ تراموات چین کے صوبہ ہوبئی میں ہوئی ہیں ۔ 60 ملین آبادی والے صوبے میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے ۔ چین کے شہرتیانجنگ میں تمام اسکول اور کاروباری مراکز آئندہ نوٹس تک بندکردیےگئے۔حکام کی جانب سے یہ فیصلہ ملک میں کروناوائرس کی صورتحال کےسبب لیا گیا ہے۔

چینی صدرنے ہسپتالوں کا کنٹرول فوج کے حوالے کردیاہے ۔تیزی سے پھیلتے وائرس نے دنیا بھر میں خوف اور تشویش کی فضا قائم کردی ہے ۔چینی حکام نے رشتہ ازدواج میں بندھنے والےشہریوں کوشادی کی تاریخیں ملتوی کرنےکی ہدایت کردی جبکہ مرنیوالوں کی آخری رسومات بھی چھوٹی سطح پر کی جائیں۔چین کے شہر ہوانگ گوانگ میں طبی سامان کی قلت ہوگئی جبکہ تعلیمی ادارے اورکاروباری مراکز بند کردئیے گئے ہیں ۔ چین کی اعلی قیادت نے مہلک کرونا وائرس پھیلنے سے متعلق ردعمل دینے میں "کوتاہیوں اور خامیوں ” کو تسلیم کیا ہے۔

جینیوا میں صحت کی عالمی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO ) چین سے دنیا بھر میں پھیلنے والے جان لیوا کرونا وائرس پر عالمی ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کر دیا۔ ڈی جی ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانم نے کہا کہ ایمرجنسی کا مقصد صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو تیز کرنا ہے، چین پر تجارتی یا سفری پابندیوں کی سفارش نہیں کر رہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اپریل تک وائرس کےخلاف جنگ پر ممکنہ طور پر ساڑھے سڑسٹھ کروڑ ڈالر لاگت آئے گی۔

دوسری جانب گوگل نےبھی چین میں اپنا دفتر بند کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔جاپان اور امریکہ سمیت کئی دیگر ملکوں نے اپنے شہریوں اور سفیروں کو واپس بلا لیا ہے ۔امریکا نے ملکی سطح پرایمرجنسی نافذ کردی ہے جس کے بعدچین نے امریکہ سے درآمد کیے جانے والے وائرس سے بچاؤ کے کچھ سامان پر محصولات منسوخ کردیئے۔چین نے یورپی یونین سے طبی سامان کی فراہمی میں مدد طلب کرلی ہے ۔ چین نے کروناوائرس سے نمٹنے کیلئے 10روز میں1000بیڈ پر مشتمل ہسپتال نے کا م کا آغاز کردیا ہے جبکہ ووہان میں دوسرا 15سو بیڈ پر مشتمل ہسپتال بھی عوام کیلئے کھول دیا گیا ۔

چینی صدر شی چن پنگ کے مطابق اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آرہی ہے اور ملک ایک ’ نازک مرحلے‘ سے گزر رہا ہے ۔ چین کی متعدد متاثرہ ریاستوں میں سفری پابندیاں عائد ہیں۔ حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔اس وباء کا مرکز چینی شہر ووہان ہے، جس کی آبادی 8.9 ملین کے قریب ہے ۔

چینی شہر ووہان کے رہائشیوں کو شہر چھوڑنے سے منع کر دیا گیا،بس،سب وے،فیری سروسزبند،ٹرینیں اورپروازیں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔چین کے صوبے ہوبئی کے 2شہروں میں ریلوے سٹیشن بند،سال نوکی تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔ وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر شنگھائی کے تمام سینما گھر بندکردئیے گئے۔ نئے سال پر چین کی 7فلموں کی ریلیز نہ ہوسکی،سکریننگ ملتوی کر دی گئی۔ ووہان میں سفارتخانے نے پاکستانی کمیونٹی کو بھی خبردار کر دیا۔

دوسری جانب برطانوی محققین نے خبردار کیا ہے کہ چین اس وائرس پر قابو نہیں پا سکے گا۔ کرونا وائرس سے چین اورہانگ کانگ کی مارکیٹس مندی کاشکارہیں۔کروزشپ کے عالمی ادارے نے چین کے سیاحوں پر پابندی عائد کر دی ہے ۔جاپان میں لنگرانداز بحری جہاز پرمزید 41 مسافروں میں کروناوائرس کے مریضوں کی تشخیص ہوگئی، غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق بحری جہاز پرموجود کروناوائرس کے کل متاثرین کی تعداد61ہوگئی ہے۔بحری جہاز پر تین ہزارسات سو افراد سوار ہیں، بحری جہاز میں سوار تمام مسافروں کو دو ہفتوں کیلئے نگہداشت میں رکھاگیاہے۔

چینی محکمہ صحت کے مطابق اس وائرس کے پھیلاؤ کے روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ اس وباء کا آغاز اس وقت ہوا ہے جب پورے چین میں لاکھوں افراد قمری سال نو کی چھٹیاں منانے کے لئے اندرون ملک سفر کررہے ہیں ، جبکہ ہزاروں افراد اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ہمراہ بیرون ملک بھی سفر کررہے ہیں۔

Comments are closed.