یوم دفاع اور اندرونی و بیرونی دشمن ، از انشال راؤ

تہواروں کا رواج انسانی تمدن کے ساتھ ہی شروع ہوا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تہوار یا فیسٹیول مذہبی یا سماجی، موسمی یا تاریخی واقعات کی یادگار کے طور پہ منائے جاتے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں چھ ستمبر کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور بطور تہوار کے ہر سال ملی جوش جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس بار بھی یوم دفاع پہ انتہائی جوش و خروش، جذبے سے منایا گیا،

یوں تو پاکستان بھارت کے مابین چار بڑی جنگیں ہوچکی ہیں جن میں 1965 میں پاک فوج و عوام نے بھارتی بدنیتی و جارحیت کے خلاف انتہائی شجاعت و بہادری سے مقابلہ کیا اور لازوال قربانیاں دیں، ترجمان پاک فوج DG/ISPR آصف غفور صاحب کے مطابق جنگوں میں کسی کی جیت نہیں ہوتی بس انسانیت کی ہار ہوتی ہے لیکن ہم جس نبیؐ کے ماننے والے ہیں اس کی تعلیمات کے مطابق ظالم کے ظلم و غرور کو خاک میں ملانا ہر صاحب ایمان کا فریضہ ہے، اس کے تحت ہر سال یوم دفاع کو اسی جذبے و عقیدت کے طور پر منایا جاتا ہے، سال 2019 کا یوم دفاع تمام دشمنوں کے لیے نہ صرف پیغام ہے کہ دشمنوں کی سازشوں و تخریب کاریوں سے نہ یہ قوم جھکنے والی ہے نہ ہی جھکے گی انشاءاللہ،

دشمن قوتوں نے وہ کونسی سازش یا تخریب کاری ہے جو پاکستان میں نہیں کی مگر اللہ کے فضل و کرم سے افواج پاکستان نے دشمن کو ابتک کی تاریخ کی عبرتناک شکست دی ہے، تمام بیرونی و اندرونی دشمن مل کر پاکستان کو لیبیا، عراق، یمن کی طرح تباہ و برباد کرنے کے منصوبے پہ عمل پیرا رہے، ایک طرف پاک فوج کے خلاف انتہائی منظم اور وسیع پیمانے پہ پروپیگنڈہ مہم چلائی جاتی رہی تو دوسری طرف مختلف گروہ بدامنی میں مصروف رہے، اس کے علاوہ کرپشن لوٹ مار و دانستہ غلط پالیسیوں کے زریعے ملکی معیشت و استحکام کو نقصان پہنچایا جاتا رہا تو ساتھ ساتھ غیرضروری قرضوں کے انبار لگا کر ملکی پالیسیاں بیرونی تسلط کے زیر اثر کی جاتی رہیں، اس پرفتن، شرانگیز، منافقانہ، ظالمانہ، ناپاک سازش کو جس خوش اسلوبی و حوصلے سے افواج پاکستان نے تمام تر بیرونی دباو و پروپیگنڈے کے باوجود خاک میں ملایا، اس پر دشمن کا منہ چڑانے کے لیے پرعزم قہقہہ تو بنتا ہی ہے،

آج لیبیا، شام، عراق، یمن و بہت سے افریقی ممالک کا حال ہمارے سامنے ہے ان کے مقابلے میں دشمن قوتوں کے زیادہ خطرناک حملے و منصوبے پاکستان میں اپنائے گئے مگر افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی برکت سے پاکستان خانہ جنگی و تباہی سے محفوظ رہا لیکن ہم آج بھی حالت جنگ میں ہیں عوام کو زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنی ذمہ داری و فریضہ کو ادا کرنا ہوگا، سابق اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ "اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ عربوں سے نہیں پاکستان سے ہے اس لیے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہوگا” اس کے علاوہ بھارت روز اول سے ہی دشمن ہے اور افغانستان کا کردار بھی سامنے ہے، پاکستان کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں اور یہ دشمن اندرونی بھی ہیںبیرونی بھی، اندرونی دشمن بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں، بحیثیت مجموعی بیرونی دشمن سے تو ہم بخوبی واقف ہیں اس لیے اندرونی دشمنوں کا تذکرہ زیادہ اہم ہے جن کی ایک لمبی فہرست ہے،

ان میں وہ سیاستدان سرفہرست ہیں جنہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور پاکستان کو قرضوں کے انبار تلے دبایا، وہ بدعنوان و رشوت خور سرکاری افسران صف اول میں شامل ہیں جنہوں نے پورے نظام کو کینسرزدہ کررکھا ہے ملک کو دیمک کی طرح چاٹتے آرہے ہیں انہی کی وجہ سے غریب امیر کا فرق بڑھتا جارہا ہے یہ حضرات اعلیٰ وزارتوں سے لیکر عام دفاتر تک ہر جگہ موجود ہیں غلط پالیسیوں کو بناکر ملک و قوم کی ایسی تیسی کررکھی ہے یہ لوگ ریاست کے اندر ریاست بناکر بیٹھے ہیں آئین و قانون کی جتنی خلاف ورزی یہ حضرات کرتے ہیں کوئی نہیں کرتا اور زیادہ تر سیاسی بنیاد پہ بھرتی ہیں صف اول کے نااہل ہیں، وہ جاگیردار اور وڈیرے شامل ہیں جنہوں نے ایک طرف تو سرکاری زمینوں پہ قبضہ و غبن کے زریعے اپنے نام کررکھی ہیں تو دوسری طرف غریبوں کی زمینوں پر غنڈہ گردی کے زور پہ قبضہ کررکھا ہے، وہ کاروباری طبقہ شامل ہے جو ٹیکس کی ادائیگی میں خیانت کرتے آرہے ہیں، وہ تاجر بیوپاری شامل ہیں جو ملاوٹ و غیرمعیاری چیزوں کے زریعے قوم میں موت بانٹ رہے ہیں لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کے قاتل یہ لوگ اپنی من مانی کا ریٹ فکس کرتے ہیں ذخیرہ اندوزی کے زریعے بلیک میلنگ کرتے ہیں،

وہ NGOs، موم بتی مافیا اور میرا جسم میری مرضی والے گروہ کی عجیب و غریب مخلوقیں شامل ہیں جو اہم راز باہر پہنچاتے ہیں اور مختلف برائیوں و امراض کو ملک میں بانٹتے رہے، وہ تنظیمیں، پارٹیاں جو قوم کو لسانی و مذہبی تقسیم میں ڈال کر نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں قتل و غارت بدامنی پھیلانا ان کا مشن ہے اور ان سب سے خطرناک وہ صحافی وہ مصنفین وہ اینکرز جو سازش کے تحت نہ صرف پاکستان کی نظریاتی اساس پہ حملہ آور ہیں بلکہ ملکی سلامتی کے ادارے ان کی آنکھ میں رڑکتے ہیں آزادئ اظہار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر فتنہ گری سے زیادہ کچھ نہیں کرتے، ان لوگوں کے بد کردار کی وجہ سے آج پاکستان مشکلات سے دوچار ہے جب تک ان کینسر کے جراثیموں کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک پاکستان کا دفاع محفوظ نہیں، یہ اللہ کا کرم ہے کہ مادر وطن کو عظیم فوج نصیب ہوئی جو دشمن کے ناپاک منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوے ہیں جن سے دشمن ہمیشہ سے لرزاں ہے،

اللہ نے مسلمانوں کو دفاع کے مضبوط بنانے کا حکم دیا ہے دفاع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اقدسؐ کے گھر وصال کے وقت کو سونے ہیرے جواہرات کے ڈھیر بیشک نہیں تھے مگر نو تلواریں ضرور لٹک رہی تھیں اور ہمارے کچھ سیاستدانوں، صحافیوں، لبرلوں کا نشانہ صرف دفاعی ادارے اور ان کا بجٹ ہی ہوتے ہیں جوکہ بیرونی ڈکٹیشن پہ کرتے ہیں، کیا کبھی ان بدنیتوں کی زبانوں سے کرپٹ و بدعنوان عناصر کے خلاف بولتے سنا کسی نے؟ کبھی نہیں کیونکہ ان کا اصل ہدف وہی ہے جو ان کے بیرونی آقاوں سے ڈکٹیشن ملتی ہے لہٰذا ہر بار کی طرح اس بار بھی یوم دفاع یہی پیغام دیکر گیا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا ہے، ملک کے آئینی و انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں لاکر مضبوطی کی طرف جانا ہوگا اور یہ کام دنوں کا ہے مگر افسوس کہ موجودہ حکومت میں بھی سوائے منہ کی فائرنگ کے کوئی عملی کام نہیں، ہمیں پڑوسی دیسوں کی طرف دیکھتے ہوے نسل در نسل حاکم طبقے سے فوری جان چھڑوانی ہوگی جس طرح چین بھارت افغانستان ایران میں اہل افراد کو آگے لایا جارہا ہے پاکستان کو بھی وقت ضایع کیے بغیر ایسا ہی کچھ کرنا ہوگا تب ہی یوم دفاع کا حق ادا ہوپائیگا کیونکہ یہ قرض ہے ان شہداء کے خون کا جنہوں نے مادر وطن کی عظمت کے لیے جانیں دی تھیں۔
از تحریر : انشال راؤ

Comments are closed.