دہلی فسادات میں زندہ بچ جانےوالے ایک مسلمان محمد زبیرکی المناک داستان،دردناک کہانی

لاہور :دہلی فسادات میں زندہ بچ جانےوالے ایک مسلمان محمد زبیرکی المناک داستان،دردناک کہانی ،اطلاعات کےمطابق بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والےمظاہروں میں ہجوم کے ہاتھوں بدترین تشدد کانشانہ بننے والےمحمد زبیر نے بی بی سی پرایک انٹرویومیں اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔

رائٹرز نے دلی فسادات کے موقع پر ایک تصویر شئیر کی تھی، جس میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں مسلمان شہری کو بے دردی سے مارا پیٹا جارہا ہے، اس تصویر نے ساری دنیا میں بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی قلعی کھول دی ۔

فروری میں دہلی میں ہونے والے فسادات میں محمد زبیراس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔ ہوش کھو جانے کے بعد انہیں مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہیں شدید چوٹیں آئیں اور انہوں نے ہسپتال میں کئی دن گزارے۔
بی بی سی سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے زبیر کا کہنا تھا کہ ” جس نے بھی مجھے دیکھا اس نے نہیں سوچا تھا کہ میں زندہ ہوں گا ” ۔

حملے کے بارے میں انہیں کیا یاد ہے ، اور ان کے ساتھ کیا ہوا ؟ یہ تو انہوں نے بتا دیا مگراس حادثے کے باوجود انسانیت پر ان کا اعتماد ابھی بھی قائم ہے ۔

"اس ہجوم میں ہزاروں افراد تھے جو راڈ ،ڈنڈے بھالے لے کر مجھ پر حملہ آور تھے اورجس کے ہاتھ میں جو تھا اس نے مجھے اسی سے پیٹا ۔ مجھے اس قدر مار پڑی کہ میں ہوش کھو بیٹھا اوروہ لوگ مجھے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے” ۔

محمد زبیر پراس وقت حملہ ہوا جب 23 فروری کی شام وہ مسجد سے گھر واپس جارہے تھے ۔

” گھر میں سب میرا انتظار کر رہے تھے کیونکہ میں انہیں یہ کہہ کرنکلا تھا کہ واپسی پر کھانے کےلئے کچھ میٹھا لیتا آؤں گا۔ میں نے سامان لیا اور جیسے ہی گھر کے قریب پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں اورہندؤں کے درمیان فساد کا آغاز ہوچکا ہے ۔ میں اپنی راہ ہولیا ۔۔۔ لیکن اچا نک سے انتہا پسندوں کے اس ٹولے نے مجھے گھیر لیا اور مارنا شروع کردیا یہاں تک میں لہو لہان ہوگیا ، تشدد سے میں بے ہوش ہوگر زمین پر گرگیا ۔”

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ہجوم میں موجود افراد ‘ جے شری رام اور مسلمانوں کو مارو ‘ کے نعرے لگا رہے تھے ۔فساد کے ختم ہوجانے پر انہیں چند لوگوں نےہسپتال پہنچا دیا ۔

” میں ہسپتال میں تھا اور میری ماں 4 دن تک مجھ سے ملنے کےلئے تڑپتی رہی لیکن میری حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ سوشل میڈیا پر جس کسی نے بھی میری تصویر دیکھی اسے یقین تھا کہ میں زندہ نہیں بچا ہوں گا ! ”
محمد زبیر کا کہنا ہے کہ جب ان پر تشدد کیا جارہا تھا تووہ بالکل بے خوف تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ تکلیف عارضی ہے ” وہ صرف اور صرف میرے جسم کو نقصان پہنچا رہے ہیں "۔

زبیر کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کو کسی مذہب سے نہیں جوڑتے، کیونکہ ایسی درندگی کے مظاہرے کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا خواہ وہ اسلام ہو یا ہندوازم ۔۔۔ وہ ایسا کرنے والے کو انسان بھی نہیں سمجھتے ۔۔!

Comments are closed.