دہشت گردوں کا دوبارہ اکٹھ پاکستانیوں کا نیا امتحان ، ازقلم: غنی محمود قصوری

دہشت گردوں کا دوبارہ اکٹھ پاکستانیوں کا نیا امتحان

ازقلم غنی محمود قصوری

اس وقت ملک پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے جس کا فائدہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھا رہا ہے ،بھارت نے پاکستان کے اندر کئی بار مداخلت کی اور علیحدگی کی تحریکوں کو پروان چڑھایا تاکہ پاکستان کا امن و سکون برباد ہواس وقت پاکستان میں ملک کا امن و سکون برباد کرنے والے کئی گروہ موجود ہیں جن میں سے بیشتر بلکہ زیادہ تر کو بھارت نے بنوایا اور فنڈنگ بھی بھارت،امریکہ اسرائیل مل کر رہے ہیں-

ان گروہوں میں سے ایک معروف گروہ ٹی ٹی پی ہے جو کہ 3 درجن سے زائد گروہوں سے بنا تھا مگر آہستہ آہستہ اندرونی بغاوت کے باعث کم ہوتا چلا گیا تاہم اب ایک بار پھر بھارت اور امریکہ کے آشیر باد سے اس گروہ کو دوبارہ منظم کیا جا رہا ہے اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو ساتھ ملا کر یک جان ہو کر سیکیورٹی فورسز و مملکت پاکستان پر حملے کئے جا رہے ہیں –

ایک نظر ڈالتے ہیں معروف دہشت گرد گروہوں کی تاریخ پر

1964 کو بلوچ لبریشن فرنٹ کی بنیاد جمعہ خان مری نے رکھی تھی تاہم اس تنظیم نے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1980 کی بلوچ بغاوت میں بڑا کردار ادا کیا تھا اس تنظیم نے وقفہ وقفہ سے علاقائی اور لسانی بنیاد پر پاکستان پر حملے جاری رکھے اور 2009 میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو اس جماعت کا سربراہ مقرر کیا گیا یہ جماعت اب بھی پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کر رہی ہے اور کئی معصوم پاکستانیوں سمیت سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی شہید کر چکی ہے-

سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں 1970 میں بلوچستان لبریشن آرمی کی بنیاد رکھی گئی تھی جس نے پاکستان پر مسلح حملے کئے مگر جنرل ضیاء الحق کی کاوش سے بلوچ علیحدگی پسند گروپوں سے مذاکرات کئے گئے جس کے باعث یہ جماعت منظر عام سے غائب ہو گئی-

بہت عرصہ غائب رہنے کے بعد اس جماعت نے دوبارہ 2000 میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد دوبارہ حملے شروع کر دیئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے-

انٹرنیشنل لیول کی جماعت القاعدہ کی بنیاد اسامہ بن لادن اور عبداللہ عزام نے 1988 میں رکھی اس جماعت نے شروع میں تو روس کے خلاف جہاد کیا اور پاکستانی فورسز کا ساتھ بھی دیا تھا تاہم افغان امریکہ جنگ میں اس تنظیم نے پاکستان پر بھی حملے کئے-

القاعدہ کے کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی نے 1999 میں داعش کی بنیاد رکھی تھی اور اسے 2014 میں اس وقت عالمی شہرت حاصل ہوئی جب اس نے انبار مہم کے دوران عراقی سیکورٹی فورسز کو اہم شہروں سے باہر نکال دیا تھا اور اپنی پاور شو کی تھی اس انٹرنیشنل لیول کی جماعت نے بھی پاکستان پر بہت سے حملے کئے اور یہ جماعت اس وقت دنیا کی تمام خطرناک دہشت پسند جماعتوں میں سے پہلے نمبر پر ہے اس جماعت میں زیادہ تر سلفی ( اہلحدیث) مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں-

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کی پالیسی کو نا سمجھتے ہوئے پاکستان کو امریکہ کا اتحادی سمجھتے ہوئے مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوی پر عمل کرتے ہوئے دیوبندی مکتب فکر کے کچھ جید مفتیان کرام کی پشت پناہی میں چھوٹے چھوٹے مسلح قبائلی گروہوں نے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے تاہم 2004 میں جب پاکستانی فوج نے جب ان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ، جامعہ اشرفیہ لاہور ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اوردیگر دیوبندی مکتب فکر کے مراکز کی طرف سے اس آپریشن کے خلاف شدید نوعیت کا فتویٰ جاری ہوا اور عوام کو افواج پاکستان کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کا عزم کرکے دو درجن سے زائد گروپوں نے مل کر دسمبر 2007 میں تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی اور بیت اللہ محسود کو ٹی ٹی پی کا امیر مقرر کیا گیا-

خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان کو 34 گروہوں کے ساتھ اتحاد کرکے بنایا گیا تھا جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے اہلکاروں( جن میں افغانی طالبان بھی شامل تھے) سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکا کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے تھے-

اگرچہ بظاہر امریکا اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طریقہ پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کر دیں حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے تھے اس معاملہ پر اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا اس جماعت نے پاکستان میں آتش و خون کا وہ کھیل کھیلا کہ ہر پاکستانی ان سے نفرت کرنے لگا ہے-

اتنی جماعتوں کے اکٹھ کے بعد ان میں کچھ اختلاف بھی ہوئے جس کے باعث کچھ گروپ تحریک طالبان پاکستان سے الگ بھی ہو گئے
ٹی ٹی پی کمانڈر احسان اللہ احسان نے اگست 2015 میں تحریک طالبان کے کچھ کمانڈروں کی تنظیم سازی کے عمل پر اختلافات کی وجہ سے اگست 2015 کو جماعت الاحرار کی بنیاد ڈالی اور الگ سے پاکستان پر حملے شروع کئے-

کافی عرصہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ان جماعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کا بڑی حد تک خاتمہ بھی کیا تاہم اب ایک بار سے پھر ان گروہوں نے اتحاد شروع کر دیا ہے جس کے باعث نئے حملوں کا خطرہ ہے اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز و عوام کا ایک نیا امتحان شروع ہو گیا ہے-

پاکستان پر نئے حملوں کی خاطر 7 مارچ 2022 کو قبائلی کمانڈر حافظ احسان اللہ نے اپنے ساتھیوں سمیت تحریک طالبان پاکستان کی بیعت کر لی ہے اور اسی طرح 10 مارچ 2022 کو لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مولوی ٹیپو گل کے تین گروپوں نے تحریک طالباں پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے جس کی تصدیق ترجمان تحریک طالبان محمد خراسانی نے کی ہے-

یقیناً ان گروہوں کے اتحاد سے ایک بار پھر آتش و خون کا بازار گرم ہو گا مگر ان شاءاللہ رب العالمین کی رحمت اور افواج پاکستان کی قربانیوں سے ان کو بہت جلد بڑی شکشت ہو گی اور امید ہے کہ ان کی یہ شکشت ان کو دوبارہ نا اٹھنے دے گی ،ان شاءاللہ

پاکستانی فورسز و عوام پہلے بھی یک جان اور تیار تھی اور اب بھی یک جان و تیار ہیں ،اللہ تعالیٰ مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت فرمائے آمین-

Comments are closed.