ماہرین آثار قدیمہ نے ڈیڑھ لاکھ سال قدیم انسان سے متعلق نئے حیران کن انکشافات کر دیئے ہیں۔
باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی یونیورسٹی کے ماہرین نے 1930 میں چین سے ملنے والی انسانی کھوپڑی پر مزید تحقیق کی تھی۔
ماہرین کے مطابق زمانہ قدیم کے ڈریگن مین کی آنکھیں مربع شکل اور منہ بڑا تھا ڈریگن مین نامی اس دور کے انسان کا دماغ آج کے انسان سے ملتا جلتا ہے، تاہم اس کے آئی سوکٹ مربع شکل کے تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے زمین پر موجود انسان کے دانت بھی بڑے تھے۔
دنیا کی پہلی حنوط شدہ حاملہ مصری ممی دریافت
ماہرین کا کہنا ہے کہ راملہ شہر کے نزدیک دریافت کی جانے والی باقیات ایک انتہائی قدیم انسانوں کی نسل کے ’آخری بچ جانے والوں‘ کی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے سائنسی جریدے ’سائنس‘ میں شائع کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ محققین کی ٹیم کے مطابق یہ انسان اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جو اس خطے میں لاکھوں سال قبل پھیل گئی تھی اور انھی کی نسل سے یورپ میں نینڈرتھل آئے تھے سائنسدانوں نے اپنی اس دریافت کو ’نیشر رملاہ ہومو‘ کا نام دیا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کی ڈاکٹر ہلا مے نے کہا کہ اس دریافت کے انسانی ارتقا کی کہانی بدل سکتی ہے، بالخصوص نینڈرتھل نسل کے انسانوں کے بارے میں نینڈرتھلز کے ارتقا کو عمومی طور پر یورپ سے جوڑا جاتا ہے یہ سلسلہ اسرائیل میں شروع ہوا ہمارا خیال ہے کہ یہاں کا ایک مقامی گروپ اس آبادی کا ذریعہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نیشر رملہ نسل کے لوگ مشرق وسطی سے پھر یورپ منتقل ہوتے چلے گئے۔‘
ماہرین کی اس ٹیم کا کہنا تھا کہ اس گروپ سے تعلق رکھنے والے پہلے ممبران کوئی چار لاکھ برس قبل موجود تھے محققین کو اس نسل میں اور یورپ میں ملنے والے نینڈرتھلز نسل سے بھی پہلے کے انسانوں میں کچھ مماثلت نظر آئی ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کی ڈاکٹر ریچل سارگ کہتی ہیں کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہم نے لیوانت (بحیرۂ روم کا مشرقی علاقہ) میں رہنے والے ماضی کے انسانوں میں سے کوئی تعلق جوڑا ہوقاسم، زوتیاہ اور تبون کی غاروں سے ایسے کئی انسانی فوسلز ملے ہیں جنھیں ہم اس زمانے میں موجود ہیں انسانوں کے کسی مخصوص گروہ سے منسوب نہیں کر سکت۔ لیکن ان کی شکلوں کا نوشیر رملا سے ملنی والی نئی باقیات سے موازنہ کرنے سے (نئے انسانی) گروہ میں ان کی شمولیت کا جواز بنتا ہے ڈاکٹر مے کے مطابق یہ انسان نینڈرتھل نسل کے آباؤ اجداد تھے۔
’یورپی نینڈرتھل دراصل یہاں لیوانت سے شروع ہوئے تھے اور پھر یورپ ہجرت کر گئے، جبکہ انسانوں کے دوسرے گروہوں کے ساتھ ان کے جنسی تعلق سے بچے پیدا ہوتے رہے۔
پروفیسر اسرائیل ہرشکوٹز کہتے ہیں کہ باقی کچھ افراد مشرق میں انڈیا اور چین کی طرف نکل گئے۔ اس طرح وہ یورپ میں قدیم مشرقی ایشیائی انسان اور نینڈرتھلز کے درمیان تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں مشرقی ایشیا میں دریافت ہونے والے کچھ فوسلز کی خصوصیات نیشر راملہ کی طرح نینڈرتھل سے ملتی جلتی ہیں۔
محققین کہتے ہیں کہ ان کے دعوے اس بنیاد پر ہیں کہ اسرائیل میں ملنے والے فوسلز اور یورپ اور ایشیا سے ملنے والے فوسلز میں کئی خصوصیات مشترک ہیں، اگرچہ ان کا یہ دعویٰ متنازعہ ہے۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کرس سٹرنگر حال ہی میں چینی انسانی باقیات کا مطالعہ کر رہے تھے۔
پروفیسر کرس سٹرنگرکہتے ہیں کہ نیشر رملہ اس لیے اہم ہے کہ یہ تصدیق کرتی ہے کہ زحتلف سپیشیز اُس وقت خطے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتی تھیں اور اب ہمارے پاس مغربی ایشیا میں بھی یہی کہانی ہے تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اسرائیل کے کچھ پرانے فوسلز کو نینڈرتھلز سے جوڑنا ایک دور کی کوڑی ہے۔ میں نیشر رملہ اور چین کے فوسلز کے مابین کسی تعلق کی بات پر بھی حیران ہوں۔‘
نیشر رملہ کی باقیات ایک ایسی جگہ سے ملی تھیں جو کبھی ایک سنک ہول ہوا کرتا تھا، اور اس علاقے میں قدیم انسان آیا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ علاقہ رہا ہو جہاں وہ جنگلی جانوروں، گھوڑوں اور ہرنوں کا شکار کرتے ہوں، جسکا اشارہ ہزاروں پتھر کے آلے اور شکار کیے گئے جانوروں کی ہڈیوں سے ملتا ہے۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ڈاکٹر یوسی زیدنر کے ایک تجزیے کے مطابق یہ اوزار بھی اسی انداز میں بنائے گئے تھے جس طرح اس وقت کے جدید انسان نے اپنے لیے بنائے تھے یہ حیران کن بات ہے کہ قدیم انسان بھی اسی طرح کے آلات استعمال کر رہے تھے جو عموماً ہومو سیپیئنز یا موجودہ نسل کے انسان استعمال کرتے تھے۔‘
’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف اسی طرح ممکن ہے کہ آلات کو (بنتا) دیکھ کر یا زبانی طریقے سے سیکھ کر ہی بنایا جا سکتا ہے۔ ہماری دریافتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا بالکل سادہ نہیں ہے اور اس میں انسان کی مختلف سپیشیز کے درمیان بہت سا انتشار، روابط اور تعامل شامل ہے۔‘
یاد رہے کہ چند ماہ قبل مشرقی کینیا کے ایک غار میں چھوٹے بچے کی ہڈیاں ملی تھیں جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ افریقہ میں سب سے قدیم تدفین ہے۔
یہ قبر کینیا میں آثارِ قدیمہ کے حوالے سے مشہور مقام ’پنجہ یا سعیدی‘ میں ایک غار کے دہانے پر ملی ہے ماہرین نے ریڈیو کاربن تاریخ نگاری اور دیگر تکنیکوں کے استعمال سے اس قبر کے زمانے اور بچے کی عمر کے بارے میں تو اندازہ لگا لیا گیا تھا لیکن بچے کی ہڈیاں اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہیں کہ ان سے یہ پتا نہیں چل رہا کہ وہ لڑکا تھا یا لڑکی۔
اس بچے کی عمرعمر 2 ½ اور 3 سال کے درمیان تھی ایک اندازے کے مطابق باقیات 7 8ہزار سال پرانی ہیں۔
شواہد بتاتے ہیں کہ اس بچے ’مٹوٹو‘ کی موت قدرتی طور پر ہوئی تھی جبکہ اسے مرنے کے فوراً بعد ہی پورے اہتمام سے دفنا دیا گیا تھا ’مٹوٹو‘ کی باقیات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسے نرم چھال کے کفن میں لپیٹ کر قبر میں اتارنے کے بعد، اس کے ننھے سر کو کسی نرم تکیے جیسی کسی چیز پر رکھا گیا اور اسے سیدھی (دائیں) کروٹ سے لٹا کر دفن کیا گیا ٹانگیں جوڑ کر سینے کی طرف اکٹھی کی گئی تھیں۔