ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے

ذیابیطس کے عالمی دن اور انسولین کی دریافت کے سو سال مکمل ہونے پر صنوفی پاکستان کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز طبی ماہرین نے مریضوں کے علاج میں مدد کے لیے منصوبہ سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ ماہرین میں پاکستان انڈوکرین سوسائٹی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سعید اے مہر، انٹرنیشنل سوسائٹی آف انڈوکرینالوجی کے ایگزیکٹو کمیٹی ممبر ڈاکٹر عباس رضا، پاکستان انڈوکرین سوسائٹی کے ایگزیکٹو ممبر ڈاکٹر فیصل مسعود قریشی شامل تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صنوفی پاکستان کے ہیڈ آف ڈایابیٹس فرنچائز سلمان شمیم نے کہا، ”صنوفی نے 1923 میں پہلی بار انسولین کی بڑے پیمانے پر تیاری کر کے اسے زندگی بچانے والی ادویہ کی حیثیت سے فعال کیا۔

اس وقت سے ہم نے اس تحقیق میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس کی علاج کی تاثیر کو آج پندرہ ملین افراد تک پہنچا یا ہے۔ انسولین سے قبل ذیابیطس کا واحد علاج فاقہ کشی کی حد تک پرہیزی خوراک پر مشتمل تھا۔

” سلمان شمیم نے حاضرین کو مزید بتایا کہ فرینکفرٹ میں واقع صنوفی کا انسولین کیمپس انسولین کی مہارت اور دنیا میں انسولین کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ انٹرنیشنل ڈایابیٹس فیڈریشن کے جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں چین اور بھارت کے بعد اب پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے ساتھ زندگی گذارنے والے ایک چوتھائی سے زیادہ بالغ افراد غیر تشخیص شدہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید اے مہر نے ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”ہم ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے آج دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔” ڈاکٹر عباس رضا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انسولین تھراپی تشخیص کرنے میں ڈاکٹروں کو درپیش رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے ملک میں ذیابیطس کے علاج میں انسولین سے ہچکچاہٹ کو ایک حقیقی آزمائش قرار دیا۔
ڈاکٹر عباس نے بتایا، ”کھانے والی ادویہ سے ذیابیطس پر قابو پانے میں ناکام مریضوں کو انسولین تھراپی کے فوائد کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔” ڈاکٹر فیصل قریشی کے مطابق انسولین کی باسہولت دستیابی کے باوجود اس کا مناسب استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیچیدگیوں کے آغاز سے قبل اس علاج کی افادیت سے متعلق معالجین اور مریضوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سلمان شمیم نے اپنے اختتامی کلمات میں بتایا کہ صنوفی، مریضوں کی منفرد ضروریات کے مطابق ذیابیطس کے علاج کے لیے طبی ماہرین کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ انہوں نے ملک بھر میں ذیابیطس کے علاج سے متعلق اپنی ٹیم کے ذریعے شروع کیے گئے مریضوں کی معاونت کے مختلف منصوبوں کا حوالہ بھی دیا۔ صنوفی اس سال کی ورلڈ ڈایابیٹس کیمپین کے لیے بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے باضابطہ شراکت داروں میں سے ایک ہے۔

Comments are closed.