عثمانیوں کا تعلق ایک ترکمانی قبیلے سے ہے۔ جو ساتویں صدی ہجری بمطابق تیرھویں صدی عیسوی کو کردستان میں آباد تھا۔ اور پیشے سے چرواہا تھا۔ چنگیز خان کی قیادت میں جب منگولیوں نے عراق اور ایشیائے کوچک کے مشرقی علاقوں میں حملے کئے تو عثمان کا دادا سلیمان اپنے قبیلے کے ساتھ ہجرت کر کے کردستان سے اناضول کے علاقوں میں ا بسا اور اخلاط کے شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ 617ھ 1220ء کی بات ہے عثمان کا دادا سلیمان 627ھ بمطابق 1230ء کو فوت ہوا اور اپنے منجھے بیٹے ارطغرل کو اپنا جانشین بنایا ارطغرل اناضول سے شمال مغرب کی جانب مسلسل بڑھتا رہا اسکے ساتھ تقریبا سو خاندان اور چار سو سے زائد شہسوار تھے۔
عثمان کا والد ارطغرل جب منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لئے یہاں سے نکلا تو اس وقت اسکے ساتھ چار سو کے قریب خاندان تھے۔ راستے میں ایک جگہ اچانک شوروغوغا بلند ہوا۔ ارطغرل جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ مسلمانوں اور نصرانیوں کے درمیان جنگ کا میدان گرم ہے اور بیزنطنی عیسائی مسلمانوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ ارطغرل کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنی پوری قوت اور شجاعت کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنے ہم مذہب و ہم عقیدہ بھائیوں کو اس مشکل سے نکالے۔ ارطغرل نے اس زور سے حملہ کیا کہ نصرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اور اسکی پیش قدمی مسلمانوں کے لئے فتح کا سبب بن گئی۔ جب معرکہ کارزار ختم ہوا تو سلجوقی اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے ارطغرل اور اسکے دستے کی بروقت پیش قدمی کی تعریف کی اور انہیں رومی سرحدوں کے پاس اناضول کی مغربی سرحدوں میں ایک جاگیر عطا کی۔ اس طرح انہیں موقع دیا کہ وہ رومی علاقوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے سلجوقی سلطنت کی توسیع کا موجب بنے۔ سلجوقیوں کو ارطغرل اور اسکے قبیلے کی صورت میں ایک طاقتور حلیف مل گیا۔ جنہوں نے رومیوں کی خلاف جہاد میں انکا پورا پورا ساتھ دیا۔اس ابھرتی ہوئی سلطنت اور سلاجقہ روم کے درمیان ایک گہرہ تعلق پیدا ہو گیا جس کا سبب رومی تھے جو انکے مشترکہ دشمن تھے اور مذہب و عقیدہ میں انکے مخالف تھے۔
ارطغرل جب تک زندہ رہا محبت کا یہ تعلق باقی رہا۔ارطغرل کی وفات کے بعد اسکے بیٹے نے بھی سلطنت سلجوقیہ کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔
عثمان کی پیدائش::
656ھ بمطابق 1258ء کو ارطغرل کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام عثمان رکھا۔اسی عثمان کی طرف عثمانی سلطنت منسوب کی جاتی ہے۔ یہ اسی سال کی بات ہے جب ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے عباسی خلافت کے دارالحکومت بغداد پر حملہ کیا۔ بڑے بڑے واقعات پیش آئے۔مسلمانوں نے بڑی بڑی مصیبتیں دیکھی۔ منگولوں نے شہر میں تباہی مچا دی۔
انہوں نے مرد عورتیں بزرگ بچے حتی کہ جو بھی ملا اسے قتل کر ڈالا سوائے نصرانیوں کہ یا ان لوگوں کہ جنہوں نے ان کے ہاں پناہ لی۔
یہ بہت واقعہ اور عظیم حادثہ تھا۔ جس سے انت مسلمہ کو گزرنا پڑا۔ ایک ایسی امت جو اپنی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے کمزور ہو گئی۔ اور اسکی طاقت جاتی رہی۔تاتاریوں نے دل کھول کر خون ریزی کی اور بےشمار انسانیت کو قتل کیا۔مال و دولت کو لوٹا۔ گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ان مشکل حالات میں جب امت مسلمہ کڑے وقت سے گزر رہی تھی دولت عثمانیہ کا مؤسس عثمان پیدا ہوا ۔
عثمان میں اعلی قائدانہ صلاحیتیں
شجاعت و حوصلہ مندی: جب بیزنطینوں نے مورصہ، مادانوس، ادرہ، نوس، کتہ، کستلہ، کے نصرانی امراء کو 700ھ 1301ء میں دولت عثمانیہ کے مؤسس عثمان سے جنگ کرنے کی غرض سے ایک صلیبی معاہدہ تشکیل دینے کی دعوت دی اور نصرانی امراء نے انکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نوزائدہ سلطنت کو ختم کرنے کے لئے ایکا کر لیا۔تو عثمان اپنی فوجوں کو لیکر آگے بڑھا خود جنگوں میں گھس گیا اور صلیبی فوجوں کو تتر بتر کر کے شجاعت و بہادری کا شاندار مظاہرہ کیا کہ عثمانیوں کے نزدیک اس کی بہادری ضرب المثل بن گئی۔
حکمت و دانائی:
عثمان جب اپنی قوم کا رئیس اعظم مقرر ہوا تو اس نے بڑی عقل ودانائی کا مظاہرہ کیا اور سلطان علاء الدین کی نصرانیوں کے خلاف مدد کی۔ بہت سے ناقابل شکست شہروں اور قلعوں کو فتح کرنے میں اسکے ساتھ رہا اسی وجہ سے دولت سلاجقہ روم کے فرمانروا سلجوقی سلطان علاءالدین نے اسے بڑی عزت دی اسے اپنے نام کا سکہ ڈھالنے اور اپنے ماتحت علاقوں میں اپنے نام کا خطبہ پڑھنے کی اجازت دی۔
اخلاص و اللہیت : عثمان کے زیر نگیں علاقوں کے قریب بسنے والے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ وہ دین اسلام کا ایک مخلص سپاہی ہے تو وہ اسکی مدد کو کمربستہ ہو گئے اور ایک ایسی اسلامی سلطنت کے ستونوں کو مستحکم کرنے کے لئے متحد ہو گئے جو اسلام دشمن سلطنت کے سامنے نا قابل عبور دیوار بن کر کھڑی ہو گئی
صبر واستقامت:
جب عثمان نے قلعوں اور شہروں کو فتح کرنا شروع کیا تو یہ صفت ان کی شخصیت میں نمایاں طور پر سامنے آئی 707ھ میں اس نے یکے بعد دیگرے کتہ، لفکہ، اق، حصار، قوج حصار کے قلعے فتح کئے۔ 712ھ میں کبوہ، یکیجہ طراقلوا اور تکرر بیکاری وغیرہ قلعے فتح کیے۔
عدل وانصاف:
اکثر ترکی مراجع جنہوں نے عثمانیوں کی تاریخ قلم بند کی ہے بتاتے ہیں کہ ارطغرل نے اپنے بیٹے بانی دولت عثمانیہ قرہجہ حصار میں قاضی مقرر کیا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب 684ھ 1285 ء میں مسلمانوں کا اس شہر پر قبضہ ہوا۔عثمان نے ایک جھگڑے میں ایک مسلمان کی خلاف فیصلہ سناتے ہوئے بیزنطنی نصرانی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔بیزنطینی کو اس سے بڑا تعجب ہوا اور اس نے عثمان سے پوچھا کہ آپ نے میرے حق میں کیسے فیصلہ سنا دیا جبکہ میں آپ کے دین پر نہیں ہوں تو عثمان نے اسے جواب دیا کہ ہمارا دین ہمیں انصاف کرنے کا کہتا ہے تو میں کیسے نہ انصاف کروں عثمان کے اس عدل و انصاف کی بدولت اس شخص اور اسکی قوم کو ہدایت نصیب ہوئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
وعدہ کی پابندی:
وعدہ کی پاسداری کا انہیں بڑا خیال تھا وہ جو وعدہ کرتے پورا کرتے۔ قلعہ اولوباد کے بازنطینی امیر نے جب عثمانی سپاہ کے ہاتھ میں قلعے کی چابیاں دیں تو یہ شرط عائد کی کہ کوئی عثمانی سپاہی پل سے گزر کر قلعے میں داخل نہیں ہو گا۔ عثمان نے اسکا پورا پورا التزام کیا اور اسکے جانشینوں نے بھی اس عہد کو نبھایا۔
عثمان کا دستور حکمرانی:
دولت عثمانیہ کے بانی عثمان کی زندگی جہاد اور دعوت دین کے لئے عبارت تھی۔ علماء اسلام امیر کو گھیرے رکھتے تھے اور سلطنت میں شرعی احکام کی تنفیذ اور انتظامی امور کی