پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال ہو گئے لیکن ابھی تک ہم انگریزوں کے غلام بنے ہوئے تھے
کبھی امریکہ تو کبھی یورپ کے آگے ہم جھکے رہتے تھے
امریکہ امداد اور فنڈز کے نام پے ہمیں پیشہ تو دیتا رہا لیکن ہم سے اپنی مرضی کے کام بھی لیتا رہا
کبھی روس کے خلاف جنگ میں مدد تو کبھی افغان جنگ میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی جاتی رہی
کبھی پاکستان کے اندر اسامہ کے لیے آپریشن پاکستان ملٹری اکیڈمی کے ساتھ کر کے چلے جاتے تھے تو کبھی بغیر کسی اجازت یا پیشگی اطلاع کے پاکستان کے جس شہر میں دل کرتا تھا ڈرون اٹیک کر کے پاکستانیوں کو شہید کر کے چلا جاتا تھا اور ہم بات بھی نا کر سکتے تھے کیوں کہ امریکہ ہمیں امداد دے رہا تھا
ہم بولنے کی ہمت بھی کرتے تو ہمیں مختلف پروگرامز جو آئی ایم ایف یا امریکہ کے تعاون سے چل رہے ہوتے تھے ان کو بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی تھی یا پھر پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیان دی جاتی
جس سے پاکستان کے حکمران اپنی غلامی اور خوف کا پورا حق ادا کرتے اور جو جو کچھ امریکہ کہتا پاکستان وہ پورا کرتا بھلے اس مین پاکستان کا نقصان ہی کیوں نا ہو رہا ہوتا
میرے ملک کے بچے عورتیں ہی کیوں نا ڈرون حملوں میں شہید ہو رہے ہوتے
ہمیں تو ڈالرز مل رہے تھے نا
اس طرح پاکستان کا نام پوری دنیا میں ڈرپوک اور غلام کی طرح مشہور ہوا
پاکستان کے سابقہ کرکٹر، موجودہ وزیراعظم عمران خان جب سے سیاست میں آیا اس کا پہلے دن سے مطالبہ رہا کہ امریکہ کی غلامی چھوڑو اور اپنے پاوں پے کھڑا ہونے کی کوشش کرو لیکن کسی نے اس کی نا سنی الٹا اسی پے باتیں شروع کر دی
جب پاکستانی حکمرانوں نے نا سنی تو اس نے خود عوام کے ساتھ مل کر امریکہ کو جواب دینے کے لیے وزیرستان کی طرف لانگ مارچ کیا، عوام کے ساتھ مل کر نیٹو کی سپلائی جو پاکستان سے افغانستان جاتی ہے کو روکے رکھا
اس کے بعد عمران خان کے خلاف بیرونی طاقتیں متحرک ہوئی اس کو چپ کرانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ پاکستان کا درد رکھنے والا لیڈر تھا وہ نا ڈرا اور نا چپ ہوا اپنی آواز بلند کرتا رہا
اس نے ایک ہی بات کو ذہن میں بٹھائے رکھا ہر ملک سے دوستی رکھی جائے گی لیکن وہ دوستی برابری کی سطح پر ہو گی نا کہ ابتری کمتری کی سطح پر
اس طرح جب اس نے اقتدار سنبھالا تو اس نے سب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن وہ تعلقات برابری کی سطح پر
اس نے اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنے اور مغرب اور یورپ کے پریشر سے نکلنے کے لیے کوششیں کی
اس نے یورپ کے بجائے سعودیہ، ایران، ملیشیاء، ترکی، یو اے ای، قطر اور باقی بھی اسلامی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کیا
امریکہ کو ہر دفعہ منہ توڑ جواب دیا اور بتایا ہم اتحادی اور دوست تو ہیں لیکن یہ بات کبھی نہیں مانی جائے گی آپ اوپر اور ہم نیچے ہیں
ہم برابری کی سطح پر کام کریں گے
اگر امریکہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے تو اس کو میرے برابر کے بندے کو میرے پاس بھیجنا ہو گا
میں سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ سے بات نہیں کروں گا
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا کہ کسی پاکستانی حکمران نے امریکہ کی سی آئی اے کے چیف سے ملنے سے انکار کیا
اس سے پہلے امریکی چپڑاسی کے آگے ہمارے لیڈرز ایسے سر جھکائے کھڑے ہوتے تھے جیسے وہ ہی سب سے بڑے لیڈر ہیں
عمران خان نے انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویو میں واضح کیا جو چہہ میگوئیاں چل رہی ہیں پاکستان دوبارہ افغانستان آپریشن کے لیے اپنے اڈے امریکہ کو دے رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے پاکستان کبھی بھی اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کے لیے کسی کو نہیں دے گا
اس بیان کے بعد پورے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے کہ کسی نے تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا
"”یہ ہے ڈو مور سے نو مور تک کا سفر””