دورہ امریکا،مودی سرکار کی ساری توقعات پر پانی پھر گیا۔ تحریر:عفیفہ راؤ

انڈیا جو ہمیشہ ہی ڈبل گیم کرنے میں ماسٹر رہا ہے وہ اب مشکل میں پھنس چکا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی انڈیا ایک طرف کواڈ گروپ کی طرف قدم بڑھانا چاہتا تھا اور دوسری جانب شنگھائی Cooperation organizationمیں بھی چین اور روس کے ساتھ اشتراک کی باتیں کر رہا تھا۔ ایک وقت پر لگتا تھا کہ شاید ایسا ممکن بھی ہو جائے گا لیکن اب نریندر مودی کے حالیہ دورے کے بعد ایسا ہونا کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔انڈیا نے نریندر مودی کے دورہ امریکہ سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کیونکہ اس دورے میں نریندر مودی کی پہلی بار صدر جو بائیڈن سے آمنے سامنے ملاقات ہونی تھی کواڈ گروپ کا بھی پہلاIn-personاجلاس ہونا تھا۔ لیکن مودی سرکار کی ساری توقعات پر پانی پھر گیا۔ جو کچھ سوچا جا رہا تھا اس دورے کے دوران بالکل بھی ویسا نہیں ہوا۔ اور یہ مودی سرکار کی اپنی نیت کا پھل ہے کیونکہ جس طرح سے وہ تمام جانب ڈبل گیم کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت حالات بدل چکے ہیں آپ دو کشتیوں کے سوار نہیں ہو سکتے۔ اگر جان بچانی ہے تو کسی ایک کشتی کا ہی انتخاب کرنا پڑے گا۔

سب سے پہلے تو جب مودی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لئے وائٹ ہاوس پہنچا تو وہاں اس کو کسی نے گھاس نہ ڈالی۔ امریکی صدر جوباِہڈن نے مودی کا استقبال کرنا بھی گوارہ نہ کیا اور وہ خود ہی دروازے سے اندر چلے گئے۔ پھر وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران نریندر مودی کو صدر جو بائیڈن نے گاندھی کے فلسفے پربھی لیکچردیدیا۔ مقبوضہ کشمیراورآسام میں مسلمانوں کو کچلنے والے نریندرمود ی کو امریکی صدر نے عمدہ انداز سے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کا پیغام عدم تشدد، احترام اور برداشت کا پیغام تھا۔ لیکن صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ مطلب اس نئے باب میں مودی سرکار کو کافی محتاط ہونا پڑے گا۔اس کے بعد مودی کی ملاقات نائب امریکی صدر کمیلا ہیرس سے ہوئی اس معاملے میں بھی ان کو اپنی عوام کے سامنے خاصی شرمندگی اٹھانا پڑی بھارتی میڈیا نے بھی خوب تنقید کی اور وجہ یہ بنی کہ مودی کے ٹوئیٹر اکاونٹ سے ملاقات کے حوالے سے نو ٹوئیٹس کی گئیں لیکن کمیلا ہیرس نے کوئی ایک ٹوئیٹ بھی نہیں کی۔اس کے بعد پریس ٹاک بھی بجائے یہ کہ مودی کے ہم منصب صدر جو بائیڈن کرتے ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ کملاہیرس نے مودی کے ساتھ میڈیا کے سامنے بات چیت کی اور اس موقع پر نہایت ذہانت اور مہارت سے کیمروں کے سامنے انہوں نے اعتراف کیا کہ دنیا کو جمہوریت کی برکتوں سے آگاہ کرنے سے پہلے امریکہ اور بھارت کے حکمرانوں کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ اپنے اقدامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ ان کے اپنے معاشروں میں جمہوری اقدار کس حد تک مستحکم ہیں۔

ویسے تو جس طرح مودی سرکار انڈیا کو صرف ہندو دیش بنانے پر بضد ہے۔ مسلمانوں اور ہندومذہب ہی کی نچلی ذاتوں کو انڈیا کی نام نہاد جمہوریت میں برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا جارہا۔ ایسے قوانین بنائے گئے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ہندوشہریوں کو دستاویزات کے پلندوں سے ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ واقعتا بھارت کے قدیم اور پیدائشی شہری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قید ہوئے 80لاکھ انسانوں کی داستان الگ ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جو باتیں کمیلا ہیرس نے مودی سرکار کو میڈیا کے سامنے سنائیں ایسی باتیں عام طور پر بند کمروں میں کیمروں سے چھپ کرکی جاتیں ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب سامنے والا آپ کا مہمان ہو۔ ہاں اگر مودی کے ہم منصب صدر جو بائیڈن اس طرح کی بات کرتے تو الگ بات تھی۔
ساتھ ہی امریکہ کے دورے کے دوران مودی کا سارا زور افغانستان کی حالیہ صورت حال ،کورونا ویکسین اور کواڈ سمٹ پر رہا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں تو ایسا لگتا تھا کہ شاید نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت صرف بھارت کی تیار کردہ ویکسین کی مشہوری کیلئے کی تھی۔ لیکن مودی سرکار کی دال بالکل نہ گل سکی۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت سبھی ترقی یافتہ ممالک نے واضح کر دیا کہ امریکہ اور برطانیہ آنے والے سبھی شہریوں کو ویکسین دوبارہ کرانی پڑے گی کیوں کہ بھارتی ویکسین قابل بھروسہ نہیں ہے۔
پھر مودی نے افغانستان کا بھی خاص طور پر ذکر کیا۔ کیونکہ ظاہری بات ہے کہ انڈیا نے اتنے سال تک افغانستان میں سرمایہ کاری کی جو اب ضائع ہو چکی ہے جس بات کی ان کو بہت تکلیف بھی ہے لیکن افغانستان کی بات کرتے ہوئی وہ بھول گئے کہ دوحہ مذاکرات کے دوران امریکہ ،روس، چین اور پاکستان نے بھارت کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ اسے بھی ایک فریق کی حیثیت دی جاتی۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم ایجنڈا کواڈ سمٹ کا تھا ۔اس معاملے میں بھی بھارتی وزیراعظم امریکہ کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہوئے خود بھارتی میڈیا کی رائے میں بھارت کی جانب سے اس دورے سے پہلے اور اس دورے کے دوران چین کے خلاف جتنا زہر اگلا گیا اس کے بعد اب آنے والے دنوں میں بھارت کو چین کے ہاتھوں بھی مزید ٹھکائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے 2020میں ہوا تھا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو اتنی جرات نہیں ہوئی کہ وہ چین کا نام لیکر اس پر تنقید کر سکیں Mari timeتنازعات کا ذکر کرکے indirectly
چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ چین South china seaکی اصلاح استعمال کرتا ہے لیکن مودی نے Indo Pacificکا لفظ استعمال کیا جس پرچین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ خود بھارت کے سنجیدہ حلقوں کے مطابق Quad Summitکے حوالے سے بھارت نے غیر ضروری پھرتیوں کا مظاہرہ کیا جبکہ دہلی کو یاد رکھنا چاہئے تھا کہ امریکہ آسٹریلیا اور جاپان کی سرحدیں تو بھارت سے نہیں ملتیں لیکن بھارت کی طویل سرحد چین سے ملتی ہے لہذا اگر چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا تو اس کا خمیازہ صرف بھارت کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
کواڈ گروپ میٹنگ پر ویسے ہی چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ جھوٹ اور الزامات کی بنیاد پر سفارتکاری بالکل بھی تعمیری نہیں۔ معاشی زبردستی کی جائے پیدائش اور صدر دفتر واشنگٹن میں ہے۔ پہلی بات چین دھمکیاں نہیں دیتا اور نہ ہی تجارتی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسری بات یہ کہ چین مختلف ممالک میں کمپنیوں کو بلاوجہ دباتا نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں معاشی زبردستی کا الزام چین پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔

اس سب کے بعد آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیسے یہ دورہ سفارت کاری کی ایک ناکام ترین مثال ثابت ہوا اور قسمت کی مار دیکھیں کہ مودی سرکار کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے جو فیک تصویر شئیر کی گئی اس کی وجہ سے پورے انڈیا کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ دراصل مودی سرکار کو یہ فیک تصویر بنانے اور اسے وائرل کرنے کی ضرورت بھی اسی لئے پڑی کہ مودی نے اپنی عوام کے سامنے اس دورے کے حوالے سے خوب بڑکیں ماری ہوئیں تھیں لیکن ان کا یہ دورہ بری طرح ناکام ہوا۔ تو اپنی عزت اور بھرم قائم کرنے کے لئے اس تصویر کا سہارا لیا گیا اور وہ بھی الٹا ہی ان کے گلے پر گیا۔اب کیونکہ مودی صاحب خود دیکھ آئے ہیں کہ امریکی حکومت ان سے بالکل خوش نہیں ہے اور وہ انکی محبت میں چین کی برائیاں کرکے اس کے ساتھ بھی بگاڑ چکے ہیں۔ تو اب وہ خود کو ایک نئی لڑائی کے لئے تیار کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے مودی سرکار نے لداخ اور مقبوضہ کشمیرمیں ایک نیا پراجیکٹ شروع کر دیا ہے۔بھارتی حکومت اب مقبوضہ کشمیر میں واقع ہمالیہ کے پہاڑوں میں سرنگ تعمیر کرکے اور مختلف پل بنا کر مقبوضہ کشمیر اور لداخ کو آپس میں ملانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس منصوبے کو سٹریٹجک سرنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اور اس پراجیکٹ پر سینکڑوں افراد کام پر لگائے جا رہے ہیں تاکہ اگلے انتخابات سے پہلے یہ منصوبہ مکمل کیا جا سکے۔آپ سب جانتے ہیں کہ لداخ کی سرحدیں پاکستان اور چین کیساتھ ملتی ہیں جو تقریبا 6 مہینے برف میں ڈھکا رہتا ہے جس کی وجہ سے یہاں آمدورفت اور اشیاء کی سپلائی کیلئے ہوائی سفر پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر کو ویسے ہی پاکستان اپنی شہ رگ مانتا ہے۔ گزشتہ سال لداخ میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں Actual line of controlکہلائے جانے والے علاقے میں لاکھوں چینی اور بھارتی فوجی تقریبا 16 ماہ تک آمنے سامنے رہے تھے جس میں بھارت اور چین کے بہت سے فوجی مارے بھی گئے تھے۔ بھارت کو اپنا بہت سا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔

اب یہ سرنگ تعمیر کرکے بھارتی حکومت اپنی فوج لداخ کے علاقے تک آسان رسائی دینا چاہتی ہے تاکہ ان کو لاجسٹک سہولیات بھی بہتر طور پر فراہم کی جائیں۔ لیکن اس طرح کے منصوبوں پر کام کرنے سے پہلے انڈیا کویہ جان لینا چاہیے کہ امریکہ تو اب نہ جانے انڈیا سے خوش ہو گا یا نہیں کیونکہ امریکہ ویسے ہی کواڈ گروپ کے بعد آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ نیا دفاعی معاہدہ کرکے خود ہی کواڈ کی اہمیت کو کم کر چکا ہے لیکن اب چین کے ساتھ انڈیا کے تعلقات جو پہلے ہی خراب تھے اب ان میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا اور وہ مزید مشکل میں پھنس جائے گا۔

Comments are closed.