بنی اسرائیل کا ایک شخص جو بہت گناہگار تھا ایک مرتبہ بہت بڑے عابد یعنی (عبادت گزار) کے پاس سے گزرا جس کے سر پر بادل سایہ کرتے تھے گناہگار شض یہ سوچ کر اس عابد کے پاس بیٹھ گیا کہ میں گناہگار اور یہ بہت بڑے عبادت گزار ہیں اگر میں ان کے پاس بیٹھوں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرما دے. عابد کو اس کا بیٹھنا بہت ناگوار گزرا کہ کہاں مجھ جیسا عبادت گزار اور کہاں پر یہ پرلے درجے کا گناہگار! یہ میرے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ چنانچہ اس نے بڑی حقارت سے اس شخص کو کہا اٹھو یہاں سے! اس پر اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ ان دونوں سے کہو کہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں میں نے اس گناہگار کو بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل ضائع کر دیے.
جس طرح انسان کا ظاہر بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اسی طرح انسان کا باطن بھی اچھائیوں اور برائیوں کا مرکب (compound) ہوتا ہے. مسکراہٹ، جسمانی حرکات و سکنات کا با وقار ہونا، نرم انداز گفتگو، صاف ستھرے کپڑے، سلیقے سے سنوارے ہوئے بال، ناخن اور دانتوں کا صاف ہونا، جسم پر میل کچیل کا نہ ہونا چہرے پر مسکراہٹ ہونا اور دیگر بہت سی چیزیں انسان کے ظاہر کو اچھا بناتی ہیں. جبکہ گالم گلوچ فحش کلامی، جھوٹ، غیبت، تہمت لگانے، چغلی کھانے چوری کرنے اور ظلم کرنے جیسے اوصاف ہمارے ظاہری کردار (Character) کو داغدار کر دیتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں سے ہمدردی و خیر خواہی کا جزبہ، ان سے محبت رکھنا، عاجزی، اخلاص جیسے بہت سی برائیاں ہمارے باطن کو آلودہ کر دیتی ہیں، باطن کی اچھائیاں اور برائیاں ظاہر پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں مثلاً دل میں نرمی ہوگی تو اس کی مٹھاس زبان پر بھی آئے گی.
ہمارے باطن کو گندہ کرنے والی صفات میں سے ایک صفت تکبر ہے. ہم اپنے آپ کو تو اعلی سمجھیں اور باقی لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھیں. اب ایک سوال ہے کہ ہم اپنے کو کمتر سمجھیں یا برتر یا برابر؟؟؟
تو گزارش ہے کہ خود کو کسی کے برابر سمجھنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں. اور اگر ہم خود کو حقیر سمجھیں تو یہ عاجزی ہے جوکہ باعثِ ثواب ہے. لیکن کسی کو اپنے سے گھٹیا حقیر اور کمتر نہ سمجھیں.
تکبر کی کچھ وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہم دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں
1: علم : علم کی وجہ سے خواہشات نفس میں گرفتار انسان کا دماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے وہ دوسروں کو جاہل اور گنوار سمجھنے لگتا ہے.
2،عبادت : فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ ساتھ نوافل، تلاوتِ، نفلی روزے، ذکرِ و اذکار کی کثرت بہترین عادت ہے. لیکن جو نفلی عبادت نہ کرنے والوں کو گھٹیا اور حقیر سمجھنا جائز نہیں.
3، دولت : حلال و جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت بری چیز نہیں لیکن معاملات جب خراب ہوتے ہیں جب غریب لوگ ہمیں کیڑے مکوڑے نظر آنے لگیں. یاد رکھیے دولت میں وفا نہیں آج اسکے پاس تو کل اسکے پاس. تو ایسی بے وفا کی وجہ سے کیوں ہم مسلمان کو حقیر جانیں؟
4،صحت و طاقت : صحت و طاقت رب عزوجل کی ایک نعمت ہے. تو اسکی وجہ سے کمزوروں، بیماروں اور چھوٹے قد والوں کو حقیر سمجھنا جائز نہیں.
5، شہرت :کچھ لوگوں کو جب شہرت ملتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں سر پر رکھ لیتے ہیں اسکی وجہ سے لوگ انہیں حقیر لگنے لگتے ہیں. یاد رکھیے ہر عروج کو زوال ہے. لہذا شہرت کی وجہ سے لوگوں کو حقیر سمجنا چھوڑ دیجئے.
6، حسن و جمال: بعض اوقات انسان اپنی خوبصورتی کی وجہ سے متکبر ہو جاتا ہے.گورے رنگ والا کالے رنگ والے کو، بڑے قد والا چھوٹے قد والا کو، بڑی آنکھوں والا چھوٹی آنکھوں والے کو کو حقیر سمجھتا ہے. عموماً ی بیماری مردوں کے مقابل عورتوں میں ذیادہ پائی جاتی ہے. یاد رکھیے عمر کے ہر دور میں حسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے. تو سوچیے کیا ہمیں اس حسن پر ناز کرنا چاہیے.
7، حسب و نسب : ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو حسب و نسب پر غرور کرتے ہیں. اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں. کیا یہ جہالت نہیں؟
ذرا سوچیے اس تکبر کا کیا حاصل؟ جوکہ اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناراضی کا سبب بنے، مخلوق کی بیزاری اور میدان محشر میں ذلت و رسوائی کا سبب بنے؟
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہمیں چند لمحوں کی عزت چاہیے یا ہمیشہ کیلئے جنت.
Shares:








