سائنسدانوں نے دنیا کا سب سے بڑا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو انسانی آنکھ سے بغیر مائیکروسکوپ کی مدد سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس عجیب و غریب بیکٹیریا کی لمبائی تقریبا 1 سینٹی میٹر ہے جو اس سے پہلے دریافت شدہ بڑے بیکٹیریوں سے 50 گنا ہے سفید لمبے دھاگے کے مانند یہ بیکٹریا سمندر کی طے میں موجود بوسیدہ مینگرو کے پتوں کی سطح پر پایا گیا۔

لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری کی سائنسدان جین میری وولنڈ نے اس دریافت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہے کہ جیسے ہم ایک ایسے انسان کے سامنے کھڑے ہوں جس کا قد ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر ہویہ جاندار سمندری حیاتیات کے پروفیسر اولیویر گروس نے مینگروو ماحولیاتی نظام میں ہم آہنگی کے بیکٹیریا کی تلاش کے دوران دریافت کیا تھا۔

گروس نے کہا کہ جب میں نے انہیں دیکھا تو میں حیران رہ گیا، میں نے اس کو مائیکروسکوپک تجربات کئے تاکہ معلوم ہو کہ یہ ایک ہی خلیہ ہے۔

دوسری جانب سائنس دانوں نے ایک مچھلی نما روبوٹ تیار کیا ہے جو پانی میں تیر کر مائیکرو پلاسٹک کو تیزی سے اکٹھا کرسکتا ہے یہ چھوٹا سا مچھلی نما روبوٹ اپنے جسم اور دم کو ہلا کر پانی میں حرکت کرتا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سمندروں سے پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

اس کی لمبائی آدھا انچ کے برابر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی دراڑوں اور ایسی جگہوں سے پلاسٹک کو اکٹھا کر سکتا ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی چین کی سِچوان یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی جانب سے بنائے جانے والے اس روبوٹ کی توانائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ نیئر انفراریڈ کی جھلکیوں سے حرکت کرتا ہے۔ ہمارے اطراف موجود روشنی نیئر انفراریڈ کا سب سے چھوٹا حصہ ہے۔

جب اس روبوٹ کی دم پر روشنی پڑتی ہے تو یہ پانی کی سطح سے نیچے کی جانب مڑ جاتی ہے اور جب روشنی پڑنا بند ہوتی ہے تو واپس اپنی جگہ پر آجاتی ہے، اس طرح روبوٹ پانی میں تیرتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے یہ روبوٹ اپنے سائز سے تین گُنا زیادہ کا فاصلہ ایک سیکنڈ میں طے کرسکتا ہے جو ایک سافٹ بحری روبوٹ کے لیے ریکارڈ ہے۔

جب یہ تیرتا ہے تو پولیسٹائرین مائیکرو پلاسٹکس اس کی سطح سے چپک جاتے ہیں اور یہ انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیتا ہے۔ یہ روبوٹ مستقبل میں سمندر سے اندازاً 24 ہزار ارب مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑوں کو نکالنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.