مزید دیکھیں

مقبول

الیکٹرک موٹر سائیکل بنانے کے لیے 31 کمپنیوں کو لائسنس جاری

وزارتِ صنعت و پیداوار کے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے حکام نےکہا ہے کہ پاکستان میں کم از کم چھ کمپنیاں برقی موٹر سائیکلیں تیار یا اسمبل کر رہی ہیں جبکہ 31 کمپنیوں کو لائسنس جاری ہو چکے ہیں۔ اس وقت جنوبی ایشیائی ملک برقی گاڑیوں (ای ویز) کو طویل مدت کے لیے اور بڑے پیمانے پر اپنانے کا مقصد رکھتا ہے۔ تاہم خیال رہے کہ 2019 میں منظور کردہ ‘الیکٹرک وہیکل پالیسی 2020-25’ برقی گاڑیوں کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے مراعات اور ٹیکس میں رعایت پیش کرتی ہے جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ برقی گاڑیاں 2030 تک تمام مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کی فروخت کا 30 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد حصہ لے لیں۔ یہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں اور بسوں کے لیے پرعزم اہداف بھی طے کرتا ہے: 2030 تک نئی فروخت کا 50 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد۔

علاوہ ازیں چین، بھارت، انڈونیشیا اور ویتنام کے بعد پاکستان دنیا میں موٹر سائیکل کی پانچویں بڑی مارکیٹ ہے۔ 240 ملین سے زیادہ آبادی والے ملک میں تقریباً 23 ملین رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں ہیں۔ اور ملک کا نقل و حمل کا شعبہ اس کے کاربن اخراج کے کل 30 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ متعدد مطالعات کے مطابق زیادہ تر موٹر سائیکلیں گاڑیوں سے زیادہ فضائی آلودگی اور سموگ پیدا کرتی ہیں اور پاکستان کی آٹو موٹیو انڈسٹری 30 لاکھ افراد کو براہِ راست اور بالواسطہ روزگار فراہم کرتی ہے اور ملکی خزانے میں اس کا حصہ سالانہ تقریباً 100 ارب روپے ہے۔

وزارتِ صنعت و پیداوار کے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل مینیجر عاصم ایاز نے بتایا، "ہم نے اب تک 31 کمپنیوں کو برقی موٹر بائیکس کی مقامی تیاری کے لیے لائسنس جاری کیے ہیں اور وہ سبھی آہستہ آہستہ پیداوار شروع کر رہی ہیں۔” اور مزید کہا کہ اس وقت کم از کم چھ کمپنیاں مختلف قسم کی موٹر سائیکلیں تیار یا اسمبل کر رہی ہیں۔

ای وی پالیسی کے تحت ٹیکس مراعات میں برقی موٹر بائیکس کے لیے بیٹریوں، موٹر اور ڈرائیو ٹرین (انجن اور گیئر کی تبدیلی) کی درآمد پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی شامل ہے جبکہ غیر ای وی حصوں پر کسٹم ڈیوٹی 15 فیصد ہے۔ دو تین پہیوں کی فروخت کے مرحلے پر جنرل سیلز ٹیکس پانچ سال کے لیے ایک فیصد مقرر کیا گیا ہے جس میں رجسٹریشن اور سالانہ ٹوکن ٹیکس سے استثنیٰ ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
سونے کی قیمتوں میں کمی
بریسٹ کینسر …… لوگ کیا کہیں گے۔۔؟ (محمد نورالہدیٰ)
اگر پاکستان سے سپورٹر بھی یہاں ہوتے تو اور اچھا لگتا، بابراعظم
ای بائیک کے لیے گھر پر چارجنگ ایک اور آپشن ہے اگرچہ صارفین بجلی کے ہائی وولٹیج اور فریکوئنسی کے مسائل کے بارے میں فکر مند ہیں جس سے ان کی مہنگی گاڑیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے ساتھ بجلی کی قابلِ اعتماد فراہمی کا عدم تحفظ ممکنہ خریداروں کے لیے باعثِ تشویش ہوگا اور چونکہ مقامی مارکیٹ میں ابھی توسیع ہونا باقی ہے تو پرزہ جات اور مرمت اور دیکھ بھال کے لیے تکنیکی مہارت کی دستیابی بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔