شہباز اکمل جندران۔۔۔
باغی انویسٹی گیشن سیل۔۔۔
الیکشن کمیشن نے ایک ہزار ایک سو سے زائد سینیٹرز اور ممبران اسمبلی کے ساتھ کیا کردیا؟
الیکشن کمیشن نے ملک کے ایک ہزار ایک سوسے زائد سینیٹرز اور ممبران اسمبلی کو عملی طورپر کلین چٹ دیدی ہے۔
دی الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 137کے تحت تمام ممبران اسمبلی اور سینٹ پابند ہیں کہ ہرسال 31دسمبر تک اپنے جملہ اثاثہ جات کے گوشوارے الیکشن کمیشن کو جمع کروائیں۔سیکشن 137کے ذیلی سیکشن 2کے تحت الیکشن کمیشن ہرسال یکم جنوری کو ایسے ممبران کے نام بذریعہ پریس ریلیز جاری کرتا ہے جو قانون کے مطابق 31دسمبر تک اثاثوں کے گوشوارے اور دیگر متعلقہ تفصیلات جمع نہیں کرواتے۔
اسی طرح سیکشن 137کے ذیلی سیکشن 3کے تحت الیکشن کمیشن 16جنوری کو ایسے ممبران اسمبلی یا سینٹ کی رکنیت معطل کردیتا ہے جو گوشوارے جمع نہیں کرواپاتے۔
جبکہ سیکشن 137کے ذیلی سیکشن 4کے تحت الیکشن کمیشن اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے والے تمام اراکین پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے گوشوارے پہلے چارماہ کے اندر چیک کرنے کا اختیار رکھتا ہے اورگوشواروں میں جھوٹ یا فرق پائے جانے کی صورت ایسے رکن پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی کے خلاف اسی قانون کے سیکشن 174کے تحت کرپٹ پریکٹسسز کے الزام میں کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔جس کی سزا نااہلی کے ساتھ ساتھ تین سال تک قیدیا ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
لیکن حیران کن طورپر الیکشن کمیشن نے اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کروانے کے بعد ملک کے ایک ہزار ایک سوسے زائد سینیٹرز اور ممبران اسمبلی کو عملی طورپر کلین چٹ دیدی ہے۔ اور ان کے جمع کروائے جانے والے گوشواروں میں سیکشن 137کے ذیلی سیکشن 4کے تحت کسی قسم کے جھوٹ یا تضاد کی نشاندہی کی ہے نہ ہی ان کے خلاف کرپٹ پریکٹسسز کی کارروائی شروع کی ہے۔
ایک طرف نیب اور اینٹی کرپشن متحرک ہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری، شہباز شریف، حمزہ شہباز،شاہد خاقان عباسی، سید خورشید شاہ، اکرم درانی،علیم خان اور خواجہ برادران اور دیگر پارلیمنٹرینز و ممبران اسمبلی نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ،وفاقی وزیر پرویز خٹک، احسن اقبال اور دیگر نیب کے ریڈار پر ہیں۔لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن ہے کہ قانون کے مطابق عملی طورپر ان تمام اراکین سمیت ایک ہزار ایک سو سے زائد ممبران کو کلین چٹ دے چکا ہے۔