محمود تيمور معروف مصری ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ انھیں دور جدید کے عربی افسانے کا بابا آدم، مختصر عربی کہانیوں کا پیشوا، عرب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپیر بھی کہا جاتا ہے۔
محمود تیمور نے 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے قدیم قصبے درب سعادۃ کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ محمود تیمور کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور کتابوں کے شیدا تھے۔ محمود تیمور کے والد ادیب علامہ احمد توفیق تیمور پاشا، پھوپھو شاعرہ عائشہ تیمور اور بھائی محمد تیمور بھی اپنے عہد کے معروف ادیب تھے اور عربی ادب میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ محمود تیمور نے زراعی اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن ٹائیفائیڈ کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گزارے۔ اس دوران میں گھر میں موجود کتابوں کو پڑھ کر عربی ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ خاندان کی طرف سے ادبی ذوق تو ورثے میں ملا تھا لہٰذا کم عمری میں ہی ان کا رجحان ادب کی طرف ہوگیا۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے ادب میں ان کی خوب مدد کی۔
 نوجوانی میں وزارت خارجہ میں ملازم ہوئے اور یورپ کا سفر کیا جہاں مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر واپس آکر جدید اور حقیقت پسند عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔
محمود تیمور القصۃ نامی رسالے کے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شائع ہوئیں۔ 1925 ء میں انھوں نے اپنی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شائع کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مختصر کہانیوں کے تقریباً 15 مجموعے لکھے۔
 محمود تیمور کی مقبول کہانیوں میں رجب افندی، الحاج شلبۃ، زامر الحي، فلب غانيۃ، فرعون الصغير، الشيخ سيد العبيط، مکتوب علی الجبين، شفاۃ غليظۃ، أبو علی الفنان، إحسان للہ اور کل عام وأنتم بخير شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 7 عدد ناول (نداء المجہول، سلوی فی مہھب الريح، المصابيح الزرق)، سفرنامے(أبو الہول يطير، شمس وليل، جزيرۃ الحب)، ڈرامے (عوالي، سہاد أو اللحن التائہ، اليوم خمر، حواء الخالدۃ، صقر قريش) اور ادبی مضامین (فن القصص، مشکلات اللغۃ العربيہ)بھی تحریر کیے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کے کہانیوں کے ترجموں کو بھی کافی مقبولیت ملی۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
اب ہمارے گھر کر کے نیٹ فلکس پر میری بیوی آئیگی یاسر حسین  
اوپن مارکیٹ میں ڈالر 316 روپے پر  پہنچ گیا   
انہوں نے کئی بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکتیں کیں جن میں بیروت، دمشق کے علاوہ، جامعہ پشاور، پاکستان میں بھی شامل ہے۔ انھیں دور جدید کے عربی افسانے کا بابا آدم، مختصر عربی کہانیوں کا پیشوا، عرب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپیر بھی کہا جاتا ہے۔ 25 اگست 1973ء کو 80 برس کی عمر میں محمود تیمور کا انتقال سوئزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہوا۔








