مارچ کے مہینہ میں آٹھ مارچ کی تیاریخ دنیا میں حقوقِ نسواں کے نام سے جانی جاتی ہے… جس تحریک کا آغاز یورپ میں فرانسیسی انقلاب کے بعد ہوا جس کا مقصد عورتوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق دینا،یکساں اخلاقی ضابطے مقرر کرنا اور عورتوں کا گھر میں رہنا قید سے تعبیر کرنا اور اُن کی گھریلو اور اہم ترین ذمہ داریوں سے آزاد کرنا،بے پردگی و بے راہ روی کا فروغ،شادی کے معاملے میں آزادی اور جنسی اعتبار سے شتر بے مہار آزادی وغیرہ جس کے بنیادی مقاصد ہیں…
یعنی اگر مرد مزدوری کرتا ہے تو لازمًا عورت بھی مزدوری کرے…
مرد چراگاہوں میں جانور چرانے جاتا ہے تو عورت بھی وحشی جانوروں کو قابو کرتی پھرے…
مساوات کا تو یہی مطلب ہوا ناں کہ ہر ممکن،ناممکن کام کر کے دکھائے عورت…!!!
جن معاشروں میں اس تحریک نے جنم لیا تھا وہاں عورت ایک صنعتی پراڈکٹ ہے…سنگل مدر کلچر نے عورت پر دوہری تہری ذمہ داری کا بوجھ لادا ہوا ہے…
جبکہ اسلام نے عورت کو حیا کی چادر دے کر قواریر کا لقب بخشا…اُسے سڑکوں پر رسوا کرنے،کھلونا اور جنسِ بازار بننے سے محفوظ کر کے مقدس رشتوں کے حصار میں مامون کر دیا…وراثت میں حق دیا…مرد کے مقابلے میں ماں کو تین گنا زیادہ حق دیا…جنگ کے میدان میں عورت کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دی…اور اس کے قتل سے منع فرمایا…معاشی ذمہ داریوں سے مستثنٰی رکھا…اور معاشرتی اصلاح میں مہذب کردار کی راہیں ہموار رکھیں…
آج حقوق نسواں کی تحریکوں کے پشت بان اپنے گریباں میں جھانک کر تو دیکھیں کہ جس گندگی کو وہ اپنے معاشرے میں پھیلا کر اُس کی گلی سڑی فصل کاٹ رہے ہیں وہی نظام اور کلچر مسلم معاشروں پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جسے الحمدللّٰہ اکثریت نا پسند کرتے ہوئے عورت کے اصل حقوق پر توجہ رکھے ہوئے ہے…
جنگوں میں لاکھوں خواتین کو آگ و خون کا نشان بنا دینا کس کی تاریخ کا سلگتا اور بھڑکتا ہوا باب ہے…؟
اسلام نے عورت کو جو باوقار،باعزت اور ذمہ درانہ کردار سونپا ہے،اس کا تصور دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں ملتا…عورت کے حقوق کو قرآن جیسے آفاقی پیغام میں سورتیں اُتار کر واضح کیا…عورت سے حُسنِ سلوک کی بار بار تاکید کی…
اسلام میں تو عورت کی پرورش اور تربیت پر جنت کی خوش خبری دی گئی…!!!
مسلم معاشروں میں اگر کہیں عورت کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تو وہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی اور ایسے واقعات کو عالمی میڈیا میں اُچھال کر ایسی تحریکیں اپنا پلڑا وزنی کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہیں…
ہمیں صحیح معنوں میں اسلام کا فہم حاصل کر کے اس کی اصلاح و فلاح پر مشتمل تعلیمات کو اپنا کر دوسروں کے اذہان و قلوب کو بھی اس روشنی سے منور کرنا ہو گا…
اور ایسی خواتین کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی جو حقیقتًا ایسی سازشوں کا شکار ہونے کی بجائے بہترین ردعمل اور گلے کی ہڈی بن جائیں…جن کے بارے شاعر نے بہت خوب کہا ہےکہ:
یہی وہ مائیں ہیں جن کی گود میں اسلام پلتا ہے…
اسی غیرت سے انسان نور کے سانچے میں ڈھلتا ہے…!!!
اور مسلمان عورت سے یہی زیور چھیننا ایسے مشنریوں کا اصل ہدف بھی ہے…!!!
یاد ہے ناں…؟
ایک عہد باندھا تھا اس دل کی دھڑکن سے…اگر اُس کی بنیادوں کے تار کھینچنے کی کوشش کی تو اس دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو کر ناکام بھی ہو سکتی ہیں…عہدِ وفا پر قائم رہنا ہی ہماری منفرد پہچان اور کامیاب زندگی ہے…!!!
(بقلم:جویریہ بتول)
==================================
Shares: