اہل کشمیر پر ظلم و ستم اور عالمی خاموشی
ازقلم :- محمد عبداللہ گِل
مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی نے اپنا غاصبانہ جما رکھا ھے۔دن بدن ان درندوں کا ظلم بڑھتا جا رہا ھے۔1947ء سے لے کر اب تک ہزاروں بے قصور عام شہریوں کو انڈین آرمی نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ھے۔لیکن آج کے دن جس شہری کو نشانہ بنایا گیا اس کی حالت مختلف تھی۔وہ اپنے بیٹے کے ساتھ شہر سے دودھ لینے گیا اور اس کو بلاوجہ قتل کر دیا گیا۔وہ بے سپہ و اسلحہ تھا۔اس میں اس عام شہری کے بنیادی حقوق جو کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی بنیاد پر دئیے گئے ہیں اسے وہ پامال کیے گئے.اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق جو بنیادی حقوق ہے وہ یہ "بنیادی حقوق مشترکہ اقدار جیسے وقار ، انصاف پسندی ، مساوات ، احترام اور آزادی پر مبنی ہیں۔ یہ اقدار اقوام متحدہ کے قانون کے ذریعہ بیان اور محفوظ ہیں”
پہلی بات تو یہ ہے کہ انڈین آرمی کا کشمیر پر قبضہ اقوام متحدہ کی 1947ء کی قرار دادوں کے بلکل خلاف ہے۔لیکن 73 برس بیت گئے کشمیریوں کو انصاف نہیں ملا۔لیکن امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص کا قتل ہوا تو سارے عالمی قوانین بیدار ہو گئے۔ان کشمیریوں کا قصور صرف اتنا ہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور یہ نعرہ لگاتے ہیں
"پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”
بھارتی حکومت نے کشمیر میں انڈین آرمی کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور انڈین حکومتی اداروں نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے نہتے ،مجبور و مظلوم کشمیریوں پہ ظلم و ستم کی انتہاء کر دی ہے۔یہ کرفیو دوسو روز سے جاری ہے۔ انڈین آرمی بلا اجازت گھروں میں داخل ہو کر جسے چاہتی ہے اٹھا لیتی ہے۔خاص طور پر جوان بچوں کو حریت پسند کہہ کر اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور پھر چند دن کے بعد ان کی تشدد شدہ لاشیں کسی اور علاقے سے ملتی ہیں ،اسی طرح مسلم عورتوں کو بھی گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے اور عصمت دری کے بعد یا تو مار دیا جاتا ہے یا پھر انتہائی بری حالت میں یہ مجبور خواتین کسی علاقے میں پھینک دی جاتی ہیں۔ یہی نہیں کسی بھی گھر کو آگ لگانا گھر سے سامان لے جانا اور توڑ پھوڑ کرنا تو روز کا معمول بن گیا ہے ۔۔۔ستم بالائے ستم کہ بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر سے اول تودور رکھا جا رہا ہے یا اگر اجازت دی بھی جا رہی ہے تو چند مخصوص علاقوں تک ہی میڈیا کی رسائی ہے ، ان علاقوں تک جانے ہی نہیں دیا جا رہا جہاں یہ سفاک گورنمنٹ اپنی فوج کے ساتھ آگ و خون کا کھیل کھیل رہی ہے ۔ اس وقت ان مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کرنے والا یا مددگار کوئی نہیں سوائے خدا کی ذات کے۔ ہزاروں گھرانے بے یارو مدد گار ایک اللہ اور پاکستانیوں کی مدد کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں کیا ھے اگر کوئی 2 سے 3 ماہ بعد بیان بھی دیا جاتا ہے تو یہ کہ دیا جاتا ہے
"ہم کشمیریوں کی اخلاقی،سیاسی مدد کے لیے تیار ہیں۔”
اگر یہ سب ظلم و جبر کشمیریوں پر اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ حقِ خود ارادیت مانگتے ہیں تو اقوامِ متحدہ ان مظالم پر کیوں خاموش ہے؟ انسانی حقوق کے دعویدار کہاں ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا کشمیر سے باہر کے مسلمانوں کو کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش رہنا چاہئے؟ یا ان کا بھی کوئی وظیفہ بنتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ کشمیری مسلمان دوسری مسلم قوموں سے ہرگز جدا نہیں۔ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ آج شام، فلسطین اور کشمیر میں دشمن انسانیت کے ظلم وستم کی بھڑکائی ہوئی آگ میں گویا سارے جہاں کے مسلمان جل رہے ہیں۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمانوں کے بہت سارے فرائض اور حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کی حفاظت کرنا، ایک دوسرے کے دکه سکه میں شریک ہونا اہم فرائض میں سے ہیں۔ پیغمبرؑ گرامی اسلام کا یہ صریح ارشاد ہے کہ جو کوئی مسلمانوں کے امور کے بارے میں اہتمام کئے بغیر صبح کرے وہ مسلمان نہیں۔ نیز آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی مظلوم کسی مسلمان کو مدد کے لئے پکارے اور وہ اس کی مدد نہ کرے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ نیز فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کا ساتهہ چھوڑتا ہے اور نہ اسے حوادث کے حوالے کرتا ہے۔
اس کے بعد کچھ قصور اپنوں کا بھی ھے۔کشمیر میں مسلمان ہی بستے ہیں نہ لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اس طرح ان کے حق میں آواز بلند نہیں کر رہے۔موجودہ حکومت نے جب ریاست مدینہ کی بات کی تو بہت خوشی ہے کہ اب مظلوم کو انصاف ملے گا۔لیکن سب امیدیں بے سود۔پاکستان سے ہی کشمیریوں کی امیدیں وابستہ ہیں اور ہم ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر ریے۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) جو کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔اس کا تو یہ حال ہے کہ ظلم و بربریت کے خلاف اجلاس منعقد ہونے میں ہی تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔اس ظلم و ستم کے خلاف فوری طور پر اجلاس منعقد ہونا چاہیے اور تمام
مسلم ممالک کو بھارت کے ظلم کا جواب دینا چاہیے۔