اختیارات کی مرکزیت
اتوار 16 اگست 2020ء
پاکستان میں حکومتی نظام میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ کمزور ہوتی چلی گئی اور اقتدارو اختیار سمٹ کر مرکز اور صوبائی دارالحکومتوں میںمرتکز ہوگیا۔برطانوی عہد سے ملنے والے ریاستی نظام میں ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی پولیس کے عہدوںکے پاس بہت اختیارات تھے۔ وہ حکومت کے ستون تھے۔یُوں اختیارات کی ضلعی سطح پرعدم مرکزیت تھی۔ ہر چیز صوبائی دارالحکومت یا مرکز سے کنٹرول نہیں ہوتی تھی۔ مختلف محکموں کے ضلعوںمیںتعینات اعلی افسران کے پاس فیصلے کرنے کی خاصی آزادی تھی۔قیام پاکستان کے بعد انیس سو ساٹھ کی دہائی تک برطانوی عہد سے ملنے والایہ نظام معمولی ردّوبدل کے ساتھ چلتا رہا۔ انیس سو تہتر کے الیکشن کے بعد اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔ اُصولی طور پر جمہوریت میں تو اختیارات عوام کو نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں لیکن ہمارے نام نہاد جمہوری پارلیمانی نظام میں اقتدار کی مرکزیت ہوتی گئی۔ حکمرانوں نے ایسے قوانین اور رولز آف بزنس بنائے جن سے بیشتر اختیارات ضلعوں سے چھین کر صوبائی بیوروکریسی یا وزیراعلیٰ کو سونپ دیے۔ اسطرح صوبائی دارالحکومتوں میں انتظامی اتھارٹی کی مرکزیت قائم ہوگئی ۔ کہنے کو ہمارا جمہوری پارلیمانی نظام ہے لیکن اس میں وزیراعلیٰ ایک طرح سے آمرانہ اختیارات کا حامل ہے۔مثلاً پنجاب حکومت کے رولز آف بزنس میں صوبائی وزیروں کے پاس بھی اختیارات نہیں ہیں۔ تمام انتظامی اختیارات سیکرٹریوں کے ذریعے وزیراعلیٰ استعمال کرتا ہے۔وہ انتظامی اختیارات جو قانونی طور پرتحصیل اور ضلع کی سطح کے افسروں یا صوبائی سیکرٹیریٹ کے اعلیٰ افسران کے پاس ہیں انہیں عملی طور پر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری کے ذریعے انتظامیہ کو چلائے لیکن چیف سیکرٹری کے عہدے کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ کے سیکرٹری(سیکرٹری ٹُو چیف منسٹر) کا عہدہ زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ وزیراعلی کا سیکرٹری اعلیٰ افسران کواپنے باس کی ہدایت پر زبانی احکامات جاری کرتا ہے جن کی پابندی لازمی تصور کی جاتی ہے۔صوبوں میںوزیراعلی سیکریٹریٹ کا حجم روز بروز برھتا جارہا ہے۔ وہاں افسروں کی ایک فوج تعینات ہوتی ہے جوصوبائی سیکرٹریٹ کے متوازی کام کرتی ہے۔ہر محکمہ کے ماتحت افسروں کوچیف سیکرٹری اور سیکرٹری کو بائی پاس کرکے وزیراعلی سیکرٹریٹ سے براہ راست ہدایات دی جاتی ہیں۔ اختیارات کی وزیراعلی کی ذات میں مرتکز ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت سے دور دراز واقع علاقوں میںرہنے والے دوسرے‘ تیسرے درجہ کے شہریوں کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ان علاقوں کو ترقیاتی فنڈز میں انکے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔چھوٹے شہروں اور دیہات میںبنیادی شہری سہولتیں تقریباً ناپید ہیں۔ نہ پینے کا صاف پانی ہے‘ نہ نکاسی آب کی سہولتیں۔ کوئی سڑک یا گلی ٹوٹ پھوٹ جائے تو ایک ایک سال اسکی مرمت نہیںہوتی۔چند بڑے شہروں سے دور رہنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکولوں‘ کالجوں پر سالانہ کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن ان میں تعلیم کا معیار بہت پست ہے۔سرکاری اساتذہ پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اپنے نجی ٹیوشن سینٹرز چلا رہے ہیں۔ملک بھر میں سرکاری ہسپتالوں کی حا لت خراب ہے۔ مریضوں کوادویات نہیں ملتیں۔ٹیسٹ کی مشینیں سال سال خراب رہتی ہیں۔ ڈاکٹرزسرکاری ہسپتالوں سے غائب ہو کر اپنے نجی کلینک اور ہسپتال چلا رہے ہیں۔ سرکاری محکموں میں چین آف کمانڈ کمزور پڑ چکی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میںشدت پسند مذہبی اور نسلی‘ لسانی گروہ منظم ہوگئے ہیں جو انتظامیہ کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں قابو کرنے کے لیے کبھی فوج کبھی رینجرز طلب کرنا پڑتے ہیں۔ اگر ضلعی سول انتظامیہ طاقتور رہتی تو حکومتی رٹ اتنی کمزور نہ پڑتی۔ایسے گروہ سر نہ اٹھا سکتے۔ جمہوریت ہو یا آمریت کوئی بھی نظام حکومتی اختیار کی مرکزیت کے ساتھ اچھی طرح ‘ مؤثر طریقہ سے کام نہیں کرسکتا۔ مغربی ملکوں نے اسکا حل یہ نکالا کہ منتخب مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا۔ برطانیہ میں پولیس کاونٹی کی سطح پرہوتی ہے۔ کاونٹی کو آپ ہمارے ملک کی یونین کونسل تصور کرلیں۔ لیکن ہم تو اُلٹ سمت میں چل پڑے۔ جتنے اختیارات برطانوی نوآبادیاتی دور میں ضلعوں اور تحصیلوں کی سطح پر موجود تھے انہیں بھی چھین کر صوبائی دارالحکومتوں میں منتقل کردیا۔نظم و نسق نے تو خراب ہونا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتی اختیارات کوضلع کی سطح پر منتقل کرنے کی غرض سے ملک بھر میں منتخب مقامی حکومتوں کا نظام بنایا گیا۔گیارہ صوبائی محکموں کے متعدد اختیارات ضلعی حکومتوں کے سپرد کردیے گئے لیکن جیسے ہی جنرل الیکشن ہوئے ان اداروں کا دائرہ کار کچھ محدود کردیا گیا۔ جب جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو دو ہزار آٹھ کے الیکشن کے بعد اس پورے نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔ سارے اختیارات صوبوں نے واپس خود سنبھال لیے۔موجودہ بد انتظامی میںاقتدار کے مراکز کی عوام (گاؤں‘ قصبے‘ چھوٹے شہر)سے دُوری اور فاصلہ ایک اہم عنصر ہے۔ملک میںایک سواُنتالیس ضلعے اور چار سو تحصیلیں ہیں( گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیرشامل نہیں)لیکن اقتدار پانچ بڑے شہروں یعنی اسلام آباد‘ پشاور‘ لاہور‘ کراچی اور کوئٹہ میں مرتکز ہے۔ملک کی ستر سے پچہتر فیصد آبادی اقتدار کے ان مراکز سے دُور رہتی ہے۔سنہ دو ہزار دس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت سے لیکر صوبوں کو بے تحاشا اختیارات سونپ دیے گئے لیکن صوبوں نے اختیارات اپنے پاس جمع کرلیے ‘ انہیں نیچے ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر ٹرانسفر نہیں کیا۔ گورننس کی موجودہ اَبتر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ایک سے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ان میں ایک اہم چیز حکومتی اختیارات کی عدم مرکزیت ہے۔ انتظامیہ کو ضلع اور تحصیل کی سطح پر مؤثر ‘ فعال اور طاقتور بنانے کے لیے آئین اور قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطرایک راستہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے جیسا کہ وہ جنرل مشرف کے دور میں تھیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ ملک کو پندرہ بیس چھوٹے چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جائے ۔ تیسرا متبادل یہ ہے کہ ڈویژنزکے کمشنر ز کوایڈیشنل چیف سیکرٹری کے اختیارات دے دیے جائیں اور کمشنرز کو اُنکے ڈویژن میں آنے والے ضلعوں کے تمام محکموں کا چیف ایگزیکٹو بنادیا جائے تاکہ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل حل ہوں۔ ان تمام آپشنز پر بحث و تمحیص ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومتی نظام جس میں اقتدارپانچ بڑے شہروں میں مرتکز ہے گورننس کی تباہی کا ایک اہم سبب ہے۔اسے بہرحال تبدیل کرنا ہوگا۔