عید قرباں ہے ہر سو ہر جگہ اسی کی برکتیں دکھائی دیتی ہیں. کہیں بکروں کی رونقیں تو کہیں بچھڑوں کے پاؤں میں بندھے کھنکتے گھنگطروں کی چھنکاریں ہیں. کہیں عید کی نماز کے بعد قربانی شروع تو کہیں قصائی کا انتظار جاری ہے.
اس سب کشمکش میں ایک اہم کام جو کرنے کا ہے اور جو عید کے مقاصد میں سے ایک ہے وہ ہے خوشیاں بانٹنا اور گلے شکوے بھلا کر پھر سے متحد ہونا. ٹوٹے تعلقات کی از سرنو بحالی اور کمزوروں کا احساس.
*قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے پیچھے مقصد بھی تو یہی ہے.*
اپنے حصے کے بعد رشتاداروں اور دوست احباب کو جو حصہ دیا جاتا ہے یہ وہ تحفہ ہوتا ہے جو پرانی رنجشوں کو مٹانے اور از سر نو رشتوں کی تکمیل کے لیے انتہائی کارآمد نسخہ ہے
*بلا شبہ شریعت کی ہر ایک چیز میں بھلائی ہی بھلائی ہے*
رشتہ داروں میں سے ٹوٹے دلوں پر مرہم رکھنا عید کے کاموں میں اہم کام ہے.
تیسرا حصہ غریبوں مسکینوں اور ان لوگوں کے نام جو قربانی میں شریک ہو کر اپنی قربانی نا کر سکے. دیں اسلام کی خوبصورتی ہی یہی ہے ہر کسی کو خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دیتا ہے. تاکہ کسی کے دل میں مفلسی یا مجبوری کا خیال تک نا رہے اور ہر مسلمان خوشی خوشی عید کی خوشیاں منا سکے. غریبوں کا غریب ہونا ان کا اپنا اختیار ہرگز نہیں یہ تو اللہ رب العزت کی تقسیم ہے جسے چاہے امیری دے اور جسے چاہے غریبی. جسے چاہے مں کی امیری اور خرچ کرنے کا جزبہ دے اور جسے چاہے من کی غریبی اور کنجوسی.
اگر ہم فراغ دلی کا مظاہرہ کریں تو رب تعالیٰ پسد فرمائے گا اور مزید برکتیں عطا فرمائے گا.
اللہ رب العزت نے اپنی پاک کتاب میں ارشادفرمایا.
سورۃ ابراہیم آیت نمبر 7.
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۹)
(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)
(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰)
(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲) اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔([1])
عید ہمارے لیے پیغام محبت لاتی ہے. لہٰذا محبت بانٹیں. گوشت کے ساتھ ساتھ مخلصی کو فروغ دیں. رشتوں میں پیار بڑھائیں. اپنی شادی شدہ بہن بھائیو کے گھر ضرور جائیں عید کی خوشیوں کو گقشت کے ساتھ تقسیم کریں. اپنے بچوں میں اپنے رشتہ داروں کی محبت کو پروان چڑھائیں. ان کے دلوں میں بڑوں کی تعظیم کا بیج بوؤیں.
یتیم اور مسکین سے شفقت والا معاملہ کریں. ایسا نہ ہو کہ آپ کا اندازِ تقسیم کسی کے لئیے باعثِ تقلیف بن جائے. عید خوشیاں بانٹنے کا نام ہے اس لئے اس کے اصل مقصد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے. کیونکہ یہ رضا الہی کے لیے قربانی کی جاتی ہے تو رضا الہی والے اعمال سے ہی اس عید کو منائیں. ٹوٹے تعلق جوڑیں محلے داروں رشتہ داروں دوستوں یاروں اپنے پیاروں میں خوشیاں بانٹیں. دکھ مٹائیں. احساس اور نرمی والا معاملہ کریں اور عید منائیں.