عید قربان پر ہماری چھوٹی سی نیکی . تحریر: ماشا نور

eid qurban

جہاں سے گاڑی گزرتی لوگوں کا ایک ہی سوال ہوتا ہاں بھائی کتنے کا
جی ہاں یہاں بات قربانی کے جانور کے ہورہی ہے مسلمانوں کے اہم تہوار کی مالی استطاعت رکھنے والا ہر مسلمان اپنی طرف سے قربانی کرے گا بات کریں کراچی کی تو کہا جاتا ہے جنتا بڑا لاہور سے اس سے بڑی تو کراچی کی مویشی منڈی ہے یہ تو ہوئی مذاق کی بات "لاہور والے دل پرنا لیں ” کراچی کی مویشی منڈی میں خوب رونقین ہوتی لوگ جانور خریدنے پوری پوری فیملیز کے ساتھ جاتے بھرپور انجوائے کرنے کے بعد جانور خریدہ جاتا بچے بڑے خواتین سب ہی قربانی کے جانوروں سے محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے قربانی کے وقت آنکھوں میں آنسو آجاتے
جہاں کسی جانور کی گاڑی محلے میں داخل ہوئی بچے خوب ہنگامہ ڈالتے گاڑی کے پیچھے پیچھے بھاگتے نوجواں بھی ہاتھوں میں موبائل لیے فورا ویڈیو بنانا شروع کردیتے کے کب جانور بھاگے اکثر نوجوانوں کی کوشش ہوتی جانور بھاگ جاے لڑکے شرارت میں بندھے جانور کی رسی کھول کر بھاگ جاتے آپ کو ہر سال ہی جانوروں کی گاڑی سے اترتے وقت یا قربانی کے وقت بھاگنے کی ویڈیوز نظر آتی ہونگی جن کو دیکھ کر خوب ہنسی آتی

اس کے ساتھ ہی قصایوں کی تو جیسے چاندی تو چھوڑیں انکے ہاتھ تو جیسے چھڑے نہیں سونا لگ جاتا بڑی بھاری قیمت میں جانور گرائے جاتےجہاں اناڑی قصائی کی جیب بھرتی وہی گرم دماغ کے جانوروں سے خوب لاتیں ٹکریں بھی کھانی پڑتی بہت سے تو ہسپتال پہنچ جاتے ہیں

ایسے میں کچھ نوجوان دوست ٹولیاں بنا کر موسمی قصائی بنے پھرتے ان کی اچھی کمائی ہوجاتی اناڑی قصائی جانور کو تکلیف تو دیتے ہیں ساتھ وہ گوشت بھی بے تکا بنا جاتے اب مالک کیا کہے کم پیسے دینے کے چکر میں خود یہ کارنامہ سر انجام دیا ورنا جہاں لاکھ کا جانور خرید سکتے وہاں دس ہزار اچھے قصائی کو دے کر جانور زبح کروایا جاسکتا ہے

چلیں آگے بڑھتے ہیں اب باری آتی ہے خواتین کی تو کیا سنائیں آپکو ہم انکا دکھ سارا دن کچن میں گزرتا پہلے کلیجی بنائیں پھر فرمائشی پروگرام ہوگا شروع کباب ،بریانی ، پسندے، بھنا گوشت، دن میں یہ سب چل جاتا رات میں مرد حضرات چھت پر باربی کیو کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیتے تب کہیں خواتین کی جان آزاد ہوتی بچے تو خوب مزے کرتے گوشت کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں اٹھائیں دوستوں کے گھر جارہے ہوتے "آج ہماری باربی کیو پارٹی ہے” عید کے ایک ہفتے بعد تک دعوتیں چلتی رہتی کبھی میکے والے کبھی سسرال والے تو کبھی دوست یار خوب محفل جمتی ہے اپنی ان خوشیوں میں یاد رکھیں ان لوگوں کو جنکے گھر کوئی ایک گوشت کی بوٹی دینے نہیں جاتا نظروں میں رکھیں ابھی سے ایسے مستحق افراد کو جو مانگتے نہیں ویسے تو سب ہی قربانی کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں پر اس بار کچھ خاص توجہ دیں ان خاندانوں پر جو بےروزگاری کا شکار ہیں، مہنگائی کے دور میں قربانی نہیں کر سکتے، کرنے کو تو چھوٹی سی نیکی ہے مگر اجر بہت زیادہ ہے ضروری نہیں جن رشتےداروں کے گھر قربانی ہورہی ہو وہاں گوشت دیا جائے انکی بجائے اپنے علاقے آس پڑوس دفتروں میں لوگوں کو نظروں میں رکھیں امید کرتی ہوں یہ تحریر پڑھ کر آپکے دماغ میں کچھ چہرے آئے ہونگے

Comments are closed.