انتخابات 2018 ء پس منظر سے پیش منظر ۔۔۔ خنیس الرحمان

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں الرباط ویب سائٹ چلایا کرتا تھا. ندیم اعوان بھائی معروف ٹورسٹ ہیں ان کے توسط سے فاروق اعظم بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے گیا تھا وہاں کی یادوں کو میں نے قلمبند کیا ہے تو آپ اس سفر نامے کو اپنی ویب سائٹ پر لگادیں میں نے بخوشی لگانے کی حامی بھر لی اور وقفے وقفے کے ساتھ 7 قسطوں پر مشتمل ان کا سفر نامہ حرمین ویب سائٹ پر لگا دیا. فاروق بھائی کا لکھنے کا انداز اور ضبط تحریر انتہائی شاندار تھا. گزشتہ چند ہفتے قبل انہوں نے فیس بک پر ایک کتاب کی تصویر لگائی انتخابات 2018ء پس منظر سے پیش منظر تک جب میں نے نیچے مصنف کا نام دیکھا تو وہ فاروق بھائی ہی کی تصنیف تھی. میں نے فوری فاروق بھائی سے ایک کتاب بھیجنے کا کہا, تقریباََ تین دن بعد کتاب خوبصورت سرورق میں میرے ہاتھوں میں تھی اور کتاب پہنچنے کی ان کو اطلاع دی ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا. کتاب تو میں نے ایک ہی دن میں پڑھ ڈالی.کتاب کے حوالے سے بات کرنے سے قبل میں فاروق بھائی کے حوالے سے بتاتا چلوں.فاروق اعظم بھائی کا تعلق کراچی سے ہے اور سیاسیات کے طالب علم ہیں, انہوں نے 2014ء میں جامعہ کراچی سے سیاسیات میں بی اے آنر کیا اور 2015 ء میں ایم اے سیاسیات مکمل کیا.اس کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا ممنواتے رہے. فاروق اعظم بھائی آج کل جامعہ کراچی میں شعبہ سیاسیات میں بطور تحقیق کار وابستہ ہیں.
اب چلتے ہیں فاروق بھائی کی تصنیف کی طرف انہوں نے اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے .کتاب کا مقدمہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر مشتمل ہے یعنی انہوں نے مختصر مگر جامع انداز میں پاکستان کے 1947 ء سے 2013 ء تک کے انتخابات کے حوالے سے لکھا. انہوں نے کتاب کا پہلا حصہ انتخابات کا پس منظر کے عنوان سے ترتیب دیا ہے اس میں انہوں نے سب سے پہلے انتخابات کا پس منظر کہ کون کون سی جماعت مد مقابل تھی, کونسی نئی جماعت اور چہروں نے انتخابات میں حصہ لیا, جو مذہبی جماعتیں الیکشن کو درست نہیں سمجھتی تھیں ان کا انتخابات میں حصہ لینا اور نمائندگان کو درپیش مسائل اور جو نااہل ہوئے کس بنیاد پر ہوئے ان وجوہات پر روشنی ڈالی اس کے علاوہ جو انتخابات کے دوران خونریزی دھماکے ہوئے اور کون کون سے سیاستدان شکار ہوئے اس حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کیا .جو کتاب کا دوسرا حصہ ہے اس میں انہوں نے نتائج کے حوالے سے لکھا کہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج میں کن جماعتوں نے اپنی بہتر کارگردگی دکھائی, کون کون سے بڑے برج الٹے اور کون سے نئے چہرے سامنے آئے, انہوں نے ہر صوبے کے حوالے سے الگ الگ نتائج اور کارگردگی کو سامنے رکھ کر زبردست رپورٹ مرتب کی, اس میں انہوں نے ووٹوں کی تعداد اور جماعتوں کے ووٹ بنک کا خاکہ الیکشن کمیشن اور دیگر ذرائع کی رپورٹ کے مطابق ترتیب دیا. جو کتاب کا تیسرا حصہ ہے اس میں انہوں نے حکومت سازی کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح سے کلین سویپ کرنے والی جماعت نے وفاق میں اپنی حکومت قائم کی اور دیگر صوبوں میں کس طرح کن جماعتوں نے اپنی حکومت قائم کی, وزیر اعظم, وزرائے اعلی کے انتخابات کے حوالے سے بتایا اس کے علاوہ ممبران کابینہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کے نام بمع وزارت لکھے . اس میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ فاروق بھائی نے کتاب پہلے ترتیب دی اس لیے 9 ماہ کے اندر حکومت نے وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں کئی چہروں کو ان کی غیر مناسب کارگردگی کی بنیاد پر ہٹا کر نئے چہرے سامنے لائے کچھ کی وزارت تبدیل کی گئی, اس کے بعد اس حصہ کہ آخر میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب پر روشنی ڈالی. اب کتاب کا جو چوتھا حصہ ہے اس میں انہوں نے صدارتی انتخابات کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح کن جماعتوں نے کس لیڈر کو چنا اور اپوزیشن کا صدر کے انتخاب کے لئے نمائندہ منتخب کرنے میں اختلاف کے حوالے سے بتایا اور صدارتی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالی اس کے بعد صدر عارف علوی کے خطاب پر روشنی ڈالی اور انہوں نے صدر صاحب کے خطاب سے متعلق کہا کہ اگر اس کا موازنہ وزیراعظم کے خطاب سے کیا جائےتو غلط نہ ہوگا. اس کے علاوہ صدارتی اختیارات کے حوالے سے انہوں نے پرانے صدور اور حال پر نظر ڈالی. جو کتاب کا آخری حصہ ہے اس میں انہوں نے ضمنی انتخابات کو سامنے رکھا.
اس کتاب سے متعلق میں نے کچھ ساتھیوں سے تذکرہ کیا تو وہ کہنے لگے انٹر نیٹ کے دور میں اس کتاب کی ضرورت نہیں تھی میں سمجھتا ہوں جو کچھ فاروق بھائی نے لکھا وہ آسانی سے کسی بھی ویب سائٹ سے نہیں مل سکتا کیونکہ انہوں نے خود انتخابات کے دوران کوریج میں حصہ لیا اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سارا احوال لکھا جو کہ ایک سیاسیات کے طالب علم کا بہت بڑا کارنامہ ہے. میں حکومت اور تعلیمی اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو تاریخ پاکستان کے حوالے سے نصاب میں شامل کیا جائے اور تمام لائبریرین اس کو اپنی لائبریری کی زینت بنائیں کیونکہ نا اس میں کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا نا کوئی انکشافات کیے گئے بلکہ انہوں نے تاریخ پاکستان کی ایک ضرورت کو مکمل کیا۔

Comments are closed.