سپریم کورٹ میں عام انتخابات 90 روز میں کروانے سے متعلق سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرہا ہے،پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ اگر عدالت اجازت دے تو میں دلائل کا آغاز کرنا چاہوں گا،وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ میں اس کیس میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کروں گا،فاروق نائیک وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک صاحب کو اس کیس میں سنے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق ایچ نائیک صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں ،عدالت نے پیپلز پارٹی کو انتخابات کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل کا آغاز کردیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہاپنی استدعا کو صرف ایک نقطے تک محدود کروں گا،استدعا ہے الیکشن آئین کے مطابق وقت پر ہونے چاہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے،
میرا نہیں خیال انتخابات کی کوئی مخالفت کرے گا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتےہوئے کہا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں،وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا انتخابات کی کوئی مخالفت کرے گا؟ میرا نہیں خیال انتخابات کی کوئی مخالفت کرے گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے ،چیف جسٹس کے سوال پر اٹارنی جنرل نےانکار میں جواب دیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 58 اور 224 پڑھا جا سکتا ہے،انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگئی نا قانون بنیں گے،انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں،الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے،صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے،وکیل علی ظفر نے کہا کہ ضروری نہیں ہے صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے وہ تاریخ دے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے،وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دیدی ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے، علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا
صدر مملکت ہدایات پر عمل نہ کریں تو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی کسی کا اعتراض نہیں،وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے،90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے مئں اتنا وقت کیوں لگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا،وکیل علی ظفر نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں،صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے،صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں،علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کیا،9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں ،کیا سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت نے تاریخ نہیں دی، اس پہلو کو ایک جانب رکھ کر سپریم کورٹ کو بھی انتخابات کا معاملہ دیکھنا چاہئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ صدر کے خلاف جاکر انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے؟ کیا آئین پاکستان سپریم کورٹ کو تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے؟علی ظفر نے کہا کہ جی بلکل سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا ہم صدر مملکت کو ہدایات دے سکتے ہیں؟اگر صدر مملکت ہدایات پر عمل نہ کریں تو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کس جماعت کی نمائندگی کرہے ہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا وکیل ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں صدر مملکت نے کہا کہ تحریک انصاف کے لیڈر انکے بھی لیڈر ہیں ، تو آپ سپریم کورٹ آنے کی بجائے انہیں کال کریں اور الیکشن کی تاریخ لیں،
صدر مملکت نے تو تاریخ نہ دے کر خود آئینی خلاف ورزی کی،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے،پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے،اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے،وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات ممکن نہیں تو صدر کو کہا جائے 54 روز میں انتخابات کا اعلان کریں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر کو کون کہے گا آپ نہیں بلکہ ہم تین ججز ہی کہہ سکتے ہیں،جب ہم آرڈر جاری کریں گے تو ذہن میں رکھیں کہ جو تاخیر کا ذمہ دار ہوگا اس کیخلاف لکھیں گے،وکیل علی ظفر نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ صدر کو انفرادی طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ صدر مملکت کے طور پر دیکھا جائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر فرد نہیں ادارہ ہے،صدر کو تو تمام طریقہ کار معلوم تھا،صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنی حاصل ہے لیکن آپ بتا دیں کہ انہوں نے تاریخ دی کب؟ صدر مملکت کی گنتی درست تھی کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے 89واں دن 6 نومبر ہے، صدر مملکت نے تو تاریخ نہ دے کر خود آئینی خلاف ورزی کی،آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں دیا ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے،آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں،صدر کو فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں ،جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں،اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے،انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں،آئین کی خلاف ورزی تو ہوچکی جس نے خلاف ورزی کی نتائج بھگتنا ہونگے،
آپ چاہتے ہیں عدالت آئین کی خلاف ورزی کو درگزر کر دے؟جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آخری سماعت پر کہا تھا کہ کوئی حل بتائیں ورنہ تو صدر کیخلاف آپ خود برا وقت لانا چاہتے ہیں،تاریخ جہاں سے آئے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ بس انتخابات ہونے چاہیں،آپ کہتے کہ صدر نے تاریخ دینی ہے تو پھر ٹھیک ہے صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی ہم لکھ دیں گے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت آئین کی خلاف ورزی کو درگزر کر دے؟ عدالت ایک دن کی تاخیر بھی کیوں درگزر کرے چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو، عدالت کو نظریہ ضرورت کی طرف نہ لیکر جائیں،وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس طرح معاملہ چلتا رہا تو انتخابات نہیں ہوسکیں گے،
درخواست گزار منیر احمد کے وکیل انور منصور خان عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا درخواست گزار کے وکیل کے طور پر اپ نے درخواست لکھی تھی؟ انور منصور خان نے کہا کہ جناب درخواست میں نے نہیں لکھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ منیر احمد پر کل ابصار عالم نے ایک کیس میں سنجیدہ الزامات لگائے ہیں،عدالتی عملے کی جانب بتایا گیا ہے کہ آپ کا وکالت نامہ اس میں موجود نہیں،آپ اگر ان کے وکیل ہیں تو وکالت نامہ جمع کرائیں ہم آپ کا وکالت نامہ قبول کرتے ہیں، انور منصور خان نے کہا کہ مجھ سے وکالت نامہ دستخط کرایا گیا ، کیوں جمع نہیں ہوا، نہیں معلوم ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں اظہر صدیق ایڈوکیٹ سمیت سات وکلا ہیں ان میں سے ایک بھی ہمارے سامنےآج موجود نہیں،عملے نے بتایا ہے عزیر چغتائی کو لاہور رجسٹری کی جانب سے سماعت کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ انور منصور خان آپ اس کیس میں پھنس سکتےہیں، منیر احمد جیسے لوگوں کو بھی فکس کرنا ہوگا،وکیل انور منصور خان نے کہا کہ میں اس کیس میں واک آؤٹ کرتا ہوں،
آئین معطل کرنے کی سزا پر آرٹیکل 6 لگتا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
وکیل عابد زبیری سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ پی ٹی آئی وکیل کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں،وکیل سپریم کورٹ عابد زبیری نے کہا کہ میں علی ظفر سے اتفاق کرتا ہوں مگر میری استدعا الگ ہے،14 مئی کو انتخابات والے فیصلے کو پڑھنا چاہتا ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 14 مئی کو انتخابات والا کیس تو ہمارے سامنے نہیں ہے،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکمنامہ پڑھ رہا ہوں جو ہم سب پر لازم ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی طرف لےجارہے ہیں،عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا انتخابات کا فیصلہ 4 اپریل کا ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر بعد میں آیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جوبھی انتخابات نہیں کروا رہا وہ آئین کومعطل کئے ہوئے ہیں،آئین کومعطل کرنےپرآرٹیکل6بھی لگ سکتاہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ علی ظفر یہ کہہ رہےہیں کہ صدرآئین کی خلاف ورزی کررہے،آج کی تاریخ تک خلاف ورزی موجود نہیں ہے7نومبرسے شروع ہوجائے گی،آپ جو دلائل دے رہے ہیں اس سے تو صدر مملکت پر آرٹیکل 6 لگ جائے گا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آئین معطل کرنے کی سزا پر آرٹیکل 6 لگتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے میں ابھی تک آئینی خلاف ورزی نہیں ہوئی،7 نومبر کی تاریخ گزرنے کے بعد آئین کی خلاف ورزی کی بات ہوگی،ہم کوشش کریں گے کہ آج ہی کیس مکمل کر لیں،
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ اتنا چاہتے ہیں ناں کہ انتخابات ہوں تو باقی باتیں چھوڑ دیں،ماضی میں جائیں تو آئین اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوچکی ہے،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ ہے کہ صدر انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ وہ کام ہم سے کرانا چاھتے ہیں جو ہمارا کام نہیں،یہ کام جن کا ہے وہ کریں،عابد زبیری نے کہا کہ یہ جو کام نہیں کررہے ہیں اس لئے تو ہم اپ کے پاس آئےہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا مطلب آپ صدر کے خلاف آرٹیکل 6 invoke کروانا چاہتےہیں، عابد زبیری نے کہا کہ میں ایسا نہیں چاہتا،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا،سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی ہوسکتی ہے،صرف اتنا بتا دیں کہ سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے،سپریم کورٹ کیسے انتخابات کی تاریخ بدل سکتی ہے یا 21 ارب دینے کا کیسے کہہ سکتی ہے،
ہمیں دوسری طرف لیکر نہ جائیں،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات نہیں ہوئے اس لیے سپریم کورٹ نے احکامات دیئے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی نے توہین عدالت کی درخواست کیوں نہیں دی،میرا سوال یہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے اور اس کی سزا کیا ہوگی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی اور کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے گی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ صدر کیخلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کروانا چاہتے ہیں،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ جب آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو سپریم کورٹ کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پنجاب انتخابات کیس کا ہمارے ساتھ لینا دینا ہی نہیں ہے،ہم دوسری درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں،چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آخری سماعت پر خود کہا تھا کہ صرف انتخابات کی بات تک محدود رہیں گے،ہمیں پتا ہے آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ ٹوٹ جائے،آپ پہلے یہ بتائیں علی ظفر سے متفق ہیں یا نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ میں اپنی استدعا پڑھوں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں آپ کی استدعا سے نہیں آئین سے مطلب ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ چاہتے ہیں مزید آئین کی خلاف ورزی جاری رہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ میں ایسا نہیں چاہتا، عابدی زبیری نے 14 مئی کے الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ فیصلہ کا حوالہ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ اس جھگڑے میں پڑے ہیں تو پھر بتائیں اس کا کورٹ آرڈر کہاں ہے؟ آپ وہ آرڈر دکھا ہی نہیں سکتے کیونکہ اس کا باضابطہ آرڈر موجود نہیں، عابد زبیری نے کہا کہ میں تین رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دے رہا ہوں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عابد زبیری صاحب ہم نے نہیں کہا تھا کہ 90 دن میں الیکشن آئین کے تحت ضروری نہیں ہیں،
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل شروع ہو گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نائیک صاحب آپ سینئر وکیل ہے آپ پیچھے جاکر بیٹھ گئے آپ کو تو آگے آنا چاہیے تھا ،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق لازمی ہونے چاہئیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت معاملہ الیکشن کا ہے۔یہ کام کمیشن کا ہے اگر وہ نہیں کراتا تو پھر شاید یہ معاملہ ہمارے پاس آئے، کیا آپ علی ظفر کے ساتھ متفق ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں علی ظفر سے متفق نہیں ہوں،تاریخ دینے کی زمہ داری صدر کی ہے کمیشن اس کا شیڈول دے گا، پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق وقت ہوں، جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا مشترکہ مفادات کونسل میں پیپلز پارٹی نے مردم شماری کی مخالفت کی؟ پیپلز پارٹی نے مخالفت نہیں کی، فاروق نائیک نائیک صاحب چھوڑ دیں آپ کی جماعت سمیت سب ذمہ دار ہیں، پیپلزپارٹی سمیت تمام لوگ انتخابات میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں،
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن 11 فروری کو عام انتخابات کراسکتا ہے۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لئے 11فروری کی تاریخ دے دی،الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے سپریم کورٹ میں عام انتخابات کی تاریخ دیدی وکیل نے کہا کہ چار فروری کو پہلا اتوار ہے اور دوسرا اتوار گیارہ فروری کو ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت اس سارے عمل میں آن بورڈ ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت نہیں کی، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ سو چ سمجھ کر سوالوں کے جواب دیں، آپ کا ادارہ ایک آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن آج ہی صدر مملکت سے مشاورت کرے، الیکشن کمیشن آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، آئین میں واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ صدر دے گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ابھی جا کر صدر مملکت سے مشاورت کر سکتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندی کے بعد 54 دن کا انتخابی شیڈول ہوتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا صدر پاکستان کو تاریخ سے آگاہ کیا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون کے مطابق صدر کو بتانےکے پابند نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ آئین کی خلاف ورزی کی ذمہ داری لے رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ابھی جا کر صدر سے کیوں نہیں ملاقات کرتا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہدایات لیکر بتا سکتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جائیں اور پتا کرکے بتائیں، وہ اتنے بڑے ہیں کہ عدالت نہیں آ سکتے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا صدر کو جواب بظاہر آئین کیخلاف ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کسی خط و کتابت میں نہیں جائے گی،
الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول سے متعلق سپریم کورٹ کا آگاہ کر دیا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 29 جنوری کو حلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہو جائیں گے،11 فروی کو ملک بھر میں انتخابات ہوں گے، 3 سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے،5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 دن گنیں تو 29 جنوری بنتی ہے،انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئے اتوار ڈھونڈ رہے تھے،4 فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے جبکہ دوسرا اتوار 11 فروری کر بنتا ہے،ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ ہم جواب کا انتظار کر لیتے ہیں۔صدر مملکت بھی پاکستانی ہے۔صدت مملکت اور الیکشن کمیشن آپس میں بات کریں۔کسی کو اعتراض ہے اگر الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کرے۔وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک مرتبہ تاریخ آ جائے۔ حلقہ بندیوں کا عمل بھی ہے ، انتخابات کب ہونا ہے یہ آئینی کھلاڑیوں نے فیصلہ کرنا ہے ، ہم چاہتے ہیں انتخابات ہو جائیں، ہم اہک تنازعہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر صدر کیساتھ لازمی ملاقات کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کاروائی میں پھر وقفہ کر دیتے ہیں۔سب کو انتخابات چاہیے ، ہم چاہتے ہیں کہ ادارے ترقی کریں،پارلیمنٹ اپنا کام کرے۔صدر مملکت اپنا کام کرے۔الیکشن کمیشن اپنا کام کرے۔ ہم بھی سوچ لیتے ہیں کیا کریں۔ آرڈر جاری کریں یا نہ کریں۔ہم کسی کا کردار نہیں لینگے،ہم چاہتے ہیں جس کی ذمہ داری ہے وہ پوری کریں۔ ہر کسی کو اپنا کام خود کرنا ہوگا ہم دوسروں کا کام نہیں کرینگے۔ ہو سکتا ہے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی آج ملاقات ہو جائے۔ ہر ملک کو آگے جانا ہوتا ہے مہذب معاشروں میں بات چیت سے فیصلہ ہوتے ہیں
سپریمُ کورٹ کا حکم ، الیکشن کمیشن میں مشاورت ہوئی،چیف الیکشن کمشنر کی قانونی ٹیم اور الیکشن کمیشن حکام سے مشاورت ہوئی، سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق غورکیا گیا
دوبارہ سماعت ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیاہے کہ صدرمملکت سے مشاورت کی جائیگی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ اس سارے عمل میں شامل رہیں ،اس سارے عمل میں کوئی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہوگا،آپ اس کو کیسے کرینگے؟ہم اس کیس کو ختم کرنا چاہتےہیں۔ آپ آج مشاورت کرلیں، وکیل نے کہا کہ سر ہم چیک کرتے ہیں کہ صدر کی کیا مصروفیات ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئندہ سماعت تک تاریخ طے کرکے آئیں، اٹارنی جنرل آپ صدر سے ملاقات فکس کرائیں ،ہم سماعت کل تک ملتوی کرتے ہیں، جو بھی ملاقات کا نتیجہ ہوگا وہ آرڈرمیں شامل کرینگے، ہم دونوں آئینی ادراوں کے اختیار کم نہیں کررہے ہیں،ہماری گزشتہ سماعت کا حکم نامہ صدر کو دکھائیں،جو تاریخ دی جایے گی اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے،ہم امید کرتے ہیں عام انتخابات کی تاریخ طے کی جائیگی،اس بارے میں کل عدالت کو آگاہ کیا جائیگا،جو بھی طےہوگا اس پر تمام کے دستخط موجود ہونگے۔ایک دفعہ تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہو گی،تاریخ بدلنے نہیں دیں گے،ہم اسی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنوائیں گے،عدالت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائیگی ،سماعت کل تک ملتو ی کر دی گئی.
سپریم کورٹ نے تحریری حکمنامہ میں کہا کہ الیکشن کمشین کے مطابق 30 نومبر کو حلقہ بندی کا عمل مکمل ہوگا، پانچ دسمبر کو حلقہ بندیوں کے نتائج شائع ہونگے، الیکشن کمیشن کے مطابق حلقہ بندی شائع ہونے کے بعد انتخابی پروگرام جاری ہوگا،
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی پروگرام 30 جنوری کو مکمل ہوگا،الیکشن کمیشن چاہتا ہے انتخابات اتوار کے دن ہوں، انتخابی پروگرام کے بعد پہلا اتوار چار فروری بنتا ہے، عوام کی شرکت کیلئے الیکشن کمیشن چاہتا ہے انتخابات 11 فروری کو ہونگے، الیکشن کمیشن آج صدر سے ملاقات کرکے انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے،صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان جو بھی طے ہو عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے، تحریر پر صدر اور الیکشن کمیشن کے دستخط ہونا لازمی ہیں، الیکشن کمشنر اپنے ممبران سے خود مشاورت کرے، آج کے عدالتی حکم پر ابھی دستخط کرینگے،عدالتی حکم کی تصدیق شدہ نقول صدر، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنا پروگرام عوام میں لیکر جائیں جسے پسند آئے گا ووٹ دیدیں گے، اعلان کے بعد کوئی درخواست نہیں سنی جائے گی ،انتخابات کی تاریخ پر سب کے دستخط ہوں ۔ فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل بھی صدر سے ملنے جاسکتے ہیں