اپنی اصلاح کا سب سے بڑا نسخہ یہ ہے کہ جیسے ہی شعور کی عمر کو پہنچیں تو روز رات کو اپنے بستر پر لیٹتے وقت اپنے احتساب کی عادت ڈالیں۔اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آج میں نے سارے دن میں کچھ سیکھا؟کوئی عمل کیا؟اگر کیا تو اچھا عمل کیا یا بُرا عمل کیا؟کسی کے ساتھ زیادتی کی؟کسی کا حق مارا؟کیا کسی کے ساتھ حسدانہ جذبات رکھےیا کسی کے ساتھ دشمنی رکھی؟
اپنا احتساب کر کے فیصلہ کریں کہ میں اپنی غلطیوں میں کمی کروں۔ غلطیاں ایک دن میں ختم نہیں ہوتیں۔ اگر یہ عادت ڈال لی جائےکہ آدمی روزانہ اپنا احتساب کرتا رہے تو اللہ اُسے مہلت دیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک اچھا اور بہتر انسان بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
ہم جب بستر پر لیٹتےہیں تو جو کامیابیاں ہم نے دوسروں کے مقابلے میں حاصل کی ہوتی ہیں ان میں سرشار ہوتےہیں، جبکہ کامیابی ہو یا ناکامی ہر صورت اپنا احتساب کرنا چاہیے۔احتساب کی عادت ہی ہے جو انسان کو بہتر کرتی ہے، بلند کرتی ہے۔یہ احتساب بےلاگ اور بے رحمانہ ہونا چاہیئے۔
یعنی آپ اکیلے ہیں ، آپ کو کسی کے سامنے کوئی اعتراف نہیں کرنا ہے لیکن اپنے سامنے اعتراف کریں کہ گفتگو میں ،بات چیت میں،میاں ہو تو بیوی کے ساتھ،بیوی ہو تو میاں کے ساتھ،بچوں کے ساتھ،انسانوں میں ،پڑوسیوں میں یا کہیں اور میں نے یہ غلطی کی ہے اور میں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کروں گا۔ایک دفعہ اس کی عادت بنا کر دیکھیں بہت جلد آپ کو اپنے اخلاق اور کردار میں واضح بہتری محسوس ہو گی۔
اپنے دین کے بارے میں یہ بات سمجھ لیں کہ یہ پاکیزگی کی دعوت ہے۔یعنی میرے بدن کو پاکیزہ ہونا ہے، میرے کھانے پینے کو پاکیزہ ہونا ہےاور میرے اخلاق کو پاکیزہ ہونا ہے اور اس کے احکامات دین میں دیے گئے ہیں۔جب آپ یہ سمجھ لیں گے کہ پاکیزگی میرا دین ہےتو پھر پاکیزگی کو آپ نے ہدف بنا لیا ہے،اپنے قلب کی صفائی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے تو آپ کبھی بھی دین کے معاملے میں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوں گےکہ میں نے یہ بحث کر لی،میں نے کسی کو نیچا دکھا دیا ، یا اچھا کام کر لیا ہے تو اللہ کے نزدیک برتر ہوں گا۔بلکہ اس معیار پر خود کو جانچیں گے کہ میں نے اپنے آپ کو کتنا پاکیزہ بنایا،اپنے آپ کی کتنی رہنمائی کی۔دین کی ساری ہدایت کا محور تزکیہ(پاکیزگی) ہے۔
دوسرا انسان کو اپنے معاملات میں تین چیزیں داخل کرنی چاہیں اور بڑی ہمت سے داخل کرنی چاہیں۔
ایک یہ کہ جس حد تک ممکن ہو سکے ایک،دو،تین یا اللہ توفیق دے تو پانچ نمازیں مسجد میں جا کر پڑھنی چاہیں۔تنہا نماز کے مقابل میں جب آپ مسجد میں جاتے ہیں تو مسجدکی اپنی ایک روحانیت ہےاور اُس سے آپ کو اپنے وجود کو بہتر طور پر سمجھنے اور اپنے پروردگار سے تعلق کی ہدایت ملتی ہے۔
نماز کا مقصد کیا ہے؟ قرآن مجید میں ہے کہ یہ خدا کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔یعنی خدا یاد رہے اور بار باریہ توجہ دلائی جائے کہ تم خداکے بندے ہو اور ایک بندے کی حیثیت سے جینا سیکھو۔اس یاد دہانی کے لیے آپ تنہا نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی اس کے مقصد کو سامنے رکھ کر پڑھیں۔اور اللہ توفیق دے تو مسجد میں نماز ادا کریں ۔
دوسری چیز قرآن مجید جو ہر ایک کے پاس موجود ہے، معمول بنانا چاہیے کہ ہفتے میں کم از کم ایک آدھ گھنٹا اللہ کی کتاب کو سمجھ کر اُس کی تلاوت کریں۔جتنا بھی ممکن ہو سکے۔چند آیتیں ہی صحیح ،ایک آدھ حصہ ہی صحیح ،لیکن اس کو معمول بنا لینا چاہیے جیسے زندگی کے دوسرے معاملات کو معمول بناتے ہیں۔
اللہ کی کتاب سے زندہ تعلق ہر مسلمان کا ہونا چاہیےتاکہ وہ ہمیشہ اُس سے ہدایت حاصل کرتا رہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آپ کی صحبت کیا ہے۔کن لوگوں سے ملتے ہیں،کن کے پاس بیٹھتے ہیں۔ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی صحبت کے بارے میں محتاط نہیں رہتے ،بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو صحیح رکھ سکیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے اور دین کے راستے پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal
Shares: