قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمیں جہاں غربت، بیروزگاری جیسے مساٸل کا سامنہ ہے وہاں دورِ حاضر میں energy crises یعنی کے انرجی بہران کا مسٸلہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے تواناٸی بحران میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تواناٸی کے بحران نے ہماری معیشت پر بہت سے منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ recession کی ایک وجہ کہیں نہ کہیں انرجی کا بحران بھی ہے۔ انرجی کے وساٸل کی قلت کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت بہت زیادہ بڑھ گٸی ہے جس کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوٸی اور پھر انڈسٹریل سیکٹر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوۓ ان کی پیدا کردا اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے صنعت کاروں نے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور پھر اس سے صارف طبقے کی قوت خرید کم ہو گٸی کیوں کہ آمدنی میں تو کوٸی اضافہ نہیں ہوا۔ پیٹرول گیسولین LPG اور CNG کی قیمتیں بھی بڑھ گٸی جس کی وجہ سے ذراٸع آمدورفت کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس طرح دیگر اشیاۓ خوردونوش اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ غرض یہ کہ کس طرح ایک مسٸلہ نے پورے ملک کی معیشت کو کس قدر خطرناک حد تک متاثر کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انرجی کا بحران کس قدر نقصان دہ ہے ملکی ترقی کی راہ میں۔
اب وقت کی اشد ضرورت ہے کہ توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی ترقی ، بہتری اور اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ موجودہ ذرائع کے تحفظ اور محتاط استعمال اور بہتر انتظام کے لیے مزید بھرپور طریقے سے کام کیا جائے تا کہ ابھی سے اس مسٸلہ پر قابو پایا جا سکے اور ملکی معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے
پاکستان کی تاریخ میں دور حاضر میں پاکستان کو سب سے زیادہ انرجی بحران کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے حتی کہ مختلف حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر کسی نے اس مسٸلہ پر توجہ نہیں دی بلکہ ہر نٸی آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کو ذمہ دار ٹھرایا کہ انہوں نے وساٸل کا صحیح استعمال اور اس کا تحفظ نہیں کیا
ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر اس حساب سے انرجی کے وساٸل نہیں بڑھ رہے۔ موجودہ بحران کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ‘آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کو یقینی بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں اور نہ صرف معاشی ترقی بلکہ سیاسی استحکام توانائی کے وسائل کی دستیابی سے منسلک ہے۔
انرجی کے بہت سے ذراٸع کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے لیکن اتھارٹیز اس طرف توجہ نہیٗ دے رہیں اور hydrocarbons کی بہت بڑی تعداد کو بیرون ملک سے درآمد کیا جا رہا ہے جس سے ہماری انرجی کی ضروریات پوری ہو تو رہی ہیں کچھ حد تک مگر اس کی لاگت زیادہ ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انرجی کے وساٸل کا بے دریغ استعمال نہ کریں اور جن زراٸع کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ان پر کام کریں اور انرجی کے زراٸع کا تحفظ یقینی بناٸیں۔ ایندھن کی فراہمی میں چوری اور ملاوٹ کو کم سے کم کریں۔ بجلی کی پیداوار میں عالمی معیار کی کارکردگی کو فروغ دیں۔
بجلی چوری سے قومی خزانے کو تقریباً سالانہ 140 ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ بحثیت قوم ہمیں سوچنا ہو گا اور اپنے رویوں کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔
غیر جانبدار اور خراب تقسیم کی وجہ سے تقریباً 15 سے 20% تک تواناٸی کا ضیاع ہو رہا ہے اور یہاں تک کے حکومت بھی اس معاملے میں بہت لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے انرجی کا سب سے زیادہ ضیاع elite طبقہ کر رہا ہے ۔ بحیثیت شہری ہم سب کا فرض ہے کہ ہم توانائی کے بے جا استعمال سے گریز کریں تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے توانائی کے منصوبوں کو بہتر اور منظم طریقے سے مانیٹر کرنا ہو گا اور توانائی کے شعبے کو ہر قسم کی کرپشن اور بے ضابطگیوں سے پاک کرنا ہو گا۔ صرف اسی صورت میں ہی توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
@b786_s

Shares: