انگریزی یا کوئی دوسری زبان بولنا کیسا ہے — عبداللہ قمر

زبانیں اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہیں، یہ بول چال کا ذریعہ ہیں اور بول چال ہی زندگی ہے. ذرا تخیل میں لائیے کہ اگر ہمارے آس پاس تمام لوگ مکمل طور پر خاموش ہوں، کوی کسی سے بات نہ کر سکتا ہو، اپنا پیغام کسی بھی طریقے سے نہ پہنچا سکتا ہو تو کیا تصویر بنے گی. ہم جذبات کسی دوسرے تک نہ پہنچا سکیں اور وہ ہمارے دل ہی میں رہ جائیں تو کیا گزرے گی. بولنے اور الفاظ کے معانی اور ان کی گہرائیوں اور مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے باجود ہمارے دل میں رہ جانے والے ہمارا جینا محال کر دیتے ہیں تو سوچیے جب ہمارے پاس وہ جذبات شیئر کرنے آپشن ہی نہ ہو تو وہ کرب کیسا ہو گا. یقیناً ہمارے جذبات، خیالات، احساسات اور افکار کا بوجھ لے کر نا ممکن کی حد تک مشکل ہو جائے گا. جب خیالات اور نظریات کا تبادلہ نہیں ہو گا تو بہت سے راستے آہستہ آہستہ بند ہو جائیں گے. یہاں تک بات ہے صرف زبان کی یا یوں کہہ لیجیے یہ اس دور تک کی بات جب انسان جنگلوں میں جانوروں کی طرح رہا کرتا تھا.

دنیا میں اس وقت سینکڑوں زبانیں بولی جا رہی ہیں. مگر انگریزی زبان کو زبانوں میں وہ حیثیت حاصل ہو گئی ہے جو موبائل فونز میں آئی فونز کو حاصل ہے، یعنی کہ status سمبل. انگریزی زبان قابلیت اور تربیت ماپنے کا معیار بن چکا ہے. اگر کوئی شخص انگریزی کے دو چار لفظ ذیادہ بول لیتا ہے خواہ اس نے وہ کیسے ہی سیکھے ہوں، اسے نسبتاً بہتر سمجھا جاتا ہے. اور کوئی قابل اور با صلاحیت انسان اگر انگریزی نا جانتا ہو تو اسے اس معاشرے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے. میں اپنے بہت ہی چھوٹی سی زندگی میں لوگوں کو صرف اس احساس کمتری کی وجہ سے اگلی صفوں سے پچھلوں صفوں میں جاتے دیکھا ہے کہ ان کی انگریزی اچھی نہیں تھی اور صرف اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو اگے کی صفوں پر سکون محسوس نہیں کرتے تھے. اگر انصاف کے ساتھ کہا جائے تو انگریزی زبان کی جان پہچان کی بنیاد پر لوگوں کی قابلیت کا فیصلہ کرنا ظلم ہو گا، جی ہاں ظلم.

ابھی ہم اس بحث نہیں الجھتے کہ ہم من حیث القوم انگریزی زبان کی غلامی کا شکار کیوں ہیں. زبانیں سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں اور وہ زبانیں جو رائج وہ تو ضرور سیکھ لینی چاہیے. اس وقت بدقسمتی سے انگریزی شبان سٹیٹس سمبل بن چکی ہے. لوگ لپک لپک کر انگریزی زبان سیکھ رہے ہیں، مختلف ادارے ملک بھر موجود ہیں جو انگریزی پڑھنے، بولنے، لکھنے اور سننے کا ہنر سیکھاتے ہیں. یونیورسٹیز میں چار کی باقاعدہ ڈگری کروائی جاتی ہے. میں انگریزی سیکھنے، بولنے اور لکھنے کا ناقد نہیں ہوں. میں انگریزی ادب اور تاریخ کا طالبعلم ہوں اور عموماً انگریزی زبان میں بلاگنگ کرتا ہوں. لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انگریزی سیکھنے کے لیے ہمارا وژن اور مقصد ہمارے اذہان میں بالکل واضح ہونا چاہیے. ہمارا مقصد انگریزی بول کر کسی کو نیچا دکھانا یا کسی پر رعب ڈالنا نہیں ہونا. چلیں میں ان لوگوں کی بات بھی نہیں کرتا جنہیں انگریزی بول کر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے. آپ مقصد کچھ بھی مثبت ہو سکتا ہے مگر انگریزی زبان سے مرعوبیت نہیں ہونی چاہیے. آپ کا مقصد کچھ نیا سیکھنا بھی سکتا ہے مگر آپ اس کی بنیاد پر اپنے کو افضل تصور نہیں کر سکتے. ذمہ دار اور نظریاتی ریاست کے فرض شناس شہری ہونے کی حیثیت سے آپ کا مقصد اقوام عالم کے سامنے اپنی قوم اور اپنی ریاست کے بیانیے کا دفاع بھی ہو سکتا ہے. لیکن وہ لوگ بھی لوگ بھی انصاف نہیں کرتے جو ان انگریزی لکھنے اور بولنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ انگریزی زبان وقت کی ضرورت ہے اور پاکستانی سوشل میڈیا اور بلاگنگ کی دنیا میں سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں لکھنے والے بھی ضرور ہونے چاہیے. میں کسی کو ترغیب نہیں دیتا کہ آپ انگلش میں کام کریں لیکن بلاگنگ کی دنیا میں انگلش زبان میں کام کرتے ہیں میں ان کی حوصلہ افزائی ضرور کروں گا. از راہِ تفنن غرض ہے کہ جب بندہ سارا دن انگریزی میں ہی پڑھتا ہے اور انگریزی میں ہی لکھتا ہے تو اس کا کچھ نا کچھ اثر تو انسان کی زندگی پر ضرور پڑتا ہے. زبان اس مین رچ بس سی جاتی ہے اور زبان سیکھنا بنیادی طور پر ہے ہی ایک پریکٹس، تو کچھ رعایت دے دیا کریں جو لوگ نارمل حالات میں بھی آپ کو انگریزی میں جواب دیتے ہیں. ہی

Comments are closed.