اشرف غنی "تنہا ” رہ گئے، یورپی سفارتی عملے کو کابل میں ہی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا

0
39
افغانستان کی حکومت کو کیسے قانونی حیثیت دی جا سکتی؟ اشرف غنی کا مشورہ

نیٹو حکام کے مطابق یورپی سفارتی عملے کو کابل میں ہی ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

باغی ٹی وی : بی بی سی نے خبر رساں ادارے روئٹرزکے حوالے سے بتایا کہ افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان کابل میں چاروں اطراف سے داخل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں کابل وہ واحد اہم شہر ہے جو اس وقت افغان طالبان کے قبضے میں نہیں ہے۔

نیٹو اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ کابل میں یورپی یونین کے ممبران کو ایک نامعلوم حفاظتی مقام پر منتقل کر دیا گیا ہےافغانستان کے دارالحکومت سے سفارتی اور بین الاقوامی عملے کی واپسی کے لیے کوششوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔

جبکہ بی بی سے نے خبر رساں ادارے اے پی کے حوالے سے بتایا کہ اتوار کی صبح کئی ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارتخانے آتے دیکھا گیا ہے یہاں بکتر بند گاڑیاں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

بی بی سی کے مطابق نام نہ ظاہر کرتے ہوئے فوجی اہلکاروں نے اے پی کو بتایا کہ سفارتی عملے کی جانب سے حساس دستاویزات کو جلایا گیا ہے اور سفارتخانے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق کابل میں کچھ دکانیں بند کر دی گئی ہیں اور حکومتی دفاتر خالی کرا لیے گئے ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر اس کی کوئی وجہ نہیں دی گئی۔

روئٹرز کے مطابق امریکا کی طرف سے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آئی جب افغان طالبان نے ملک کے آخری بڑے شہر جلال آباد پر بھی قبضہ کر لیا اس طرح افغان حکومت صرف کابل تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے جبکہ دارالحکومت میں بھی طالبان داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں-

روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ طالبان کی تیز تر پیش قدمی کے بعد گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کے لیے سامنے آئے تھے بظاہر لگتا ہے کہ وہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ قبائلی سردار جنہوں نے ایک روز قبل ہی صدر غنی سے ملاقات کی تھی، یا تو بھاگ گئے ہیں یا پھر انہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اس طرح صدر اشرف غنی بغیر کسی ‘فوجی طاقت تنہا رہ‘ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ اتوار کو طالبان نے مشرقی شہر جلال آباد کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس سے ایک دن قبل انھوں نے مزار شریف پر قبضے کا اعلان کیا تھا جلال آباد میں طالبان اور فوج کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی کیونکہ گورنر نے سرینڈر کر دیا تھا طالبان نے کل 34 میں سے 23 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

طالبان سے لڑائی میں افغان فوج کی ناکامیوں کے بعد صدر اشرف غنی پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ان سے استعفی مانگا جا رہا ہے۔ ان کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، استعفی دیں یا دارالحکومت پر حکومتی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے لڑائی جاری رکھیں۔

Leave a reply