فیس بک پڑھ کر لڑنا شروع کردیں تو یہاں نظام ہی نہیں چل سکتا،عدالت

0
121
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ یہاں کوئی پراسیکیوشن برانچ نہ ہو تو کیا کہہ سکتے ہیں

فیس بک پڑھ کر لڑنا شروع کردیں تو یہاں نظام ہی نہیں چل سکتا،عدالت

عمران خان کی بریت کی حمایت کے الزام میں برطرف 2 پراسیکیوٹرز کی درخواست پر سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، وکیل نے کہا کہ ہم سے کچھ ہائی پروفائل کیسز میں حمایت مانگی گئی، نہیں دی تو ہٹا دیا گیا،عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ اور اٹارنی جنرل آفس کی تعیناتیاں اس طرح ہی ہوتی ہیں، یہ پولیٹکل آفس ہیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ زبردستی کام کرنا چاہتے ہیں ؟ وکیل نے کہا کہ مس کنڈکٹ کا الزام لگا کر ہمیں ہٹا دیا گیا اس طرح تو ہمارا کیرئیر اسٹیک پر ہے،

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ یہاں کوئی پراسیکیوشن برانچ نہ ہو تو کیا کہہ سکتے ہیں،کسی لیگل کونسل کا کوئی رائٹ نہیں ، تعیناتی اشتہار کے بغیر ہوئی، بغیر اشتہار تعیناتی ہوئی، اسی لیے تو بیڑا غرق ہوا ہے ، اے ٹی سی کی دو عدالتیں ہیں، 38 کیسز ہیں پچھلے دو سال میں انہوں نے کونسے فیصلے دیئے؟ نیب کیسز میں تو سمجھ آتی ہے اے ٹی سی میں کیسز کا فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں شرم آنی چاہیے، 2014 میں 14 وکلا شہید ہوئے آج تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا، ہائیکورٹ ، پراسیکیوٹر، اے ٹی سی ججز سب ان کیسز کے فیصلے نہ ہونے کے ذمہ دار ہیں ،ججز کو ڈر لگے تو ان کو گھر چلے جانا چاہیے،

ناروال اسپورٹس کمپلیکس کیس،ریفرنس دائر ہونے کے بعد احسن اقبال نے کیا مطالبہ کر دیا؟

احتساب عدالت نے احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا

وکیل نے کہا کہ بہت سے مقدمات میں ان کی دلچسپی ہے اس لیے ایڈووکیٹ جنرل اپنے بندے لا رہے ہیں ،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہٹانے کے لیٹر میں مس کنڈکٹ لکھا ہوتا تو آپ کا کیس اچھا بن سکتا تھا ،وکیل نے کہا کہ بار کی جانب سے ان کیسز کی بنیاد پر ہی ہمیں ٹارگٹ کیا گیا فیس بک پر کمپین چلائی جارہی ہے،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک، ٹویٹر ان سب کو پڑھیں تو کس کی عزت محفوظ ہے؟ فیس بک پڑھ کر لڑنا شروع کردیں تو یہاں نظام ہی نہیں چل سکتا،

Leave a reply