فیس بک کی بھارت نوازی، برہان وانی کی تصویر شیئر کرنے پر کیا اٹھایا اقدام؟ اہم خبر
فیس بک نے کشمیری لیڈر برہان وانی شہید کی تصاویر اور بھارتی مظالم پر مبنی دیگر مواد والے اکاؤنٹس اور پوسٹیں ڈیلیٹ کرنا شروع کر دی ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید احتجاج کیا ہے،
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا صارفین نے باغی کو بعض پوسٹیں بھیجی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ صرف برہان وانی کی تصویر شیئر کرنے پر فیس بک انتظامیہ کی طرف سے انہیں نوٹس بھیجا گیا اور پھر یہ پوسٹیں ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں، سوشل میڈیا صارفین نے اس امر پر شدید احتجاج کیا ہےکہ فیس بک، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کی طرف سے بھارت نوازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کشمیر سے متعلق بھارتی دہشت گردی کے خلاف مواد پھیلنے سے روکا جاتا ہے،
متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اس وقت بدترین دہشت گردی جاری ہے اور نہتے شہریوں کے خلاف کلسٹر بم استعمال کئے جارہے ہیں لیکن ایسا مسئلہ جس کے متعلق یو این نے قراردادیں پاس کر رکھی ہیں اس کے متعلق بات کرنے اور برہان وانی جیسے عظیم کشمیری شہداء کی تصاویر شیئر کرنے پر پوسٹیں اور اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے جاتے ہیں، یہ امر انتہائی افسوسناک ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لے اور فیس بک انتظامیہ سے خاص طور پر اس کی بھار ت نوازی سے متعلق بات کی جائے
برہان وانی کی تصویر شیئر کرنے والے جس کی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی گئی اس کا کہنا ہے کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ انڈیا کس حد تک چلا گیا ہے، کشمیر میں خون بہہ رہا ہے اور فیس بک پر برہان وانی کی تصویر لگانا بھی جرم بن کر رہ گیا ہے،
واضح رہے کہ فیس بک انتظامیہ میں انڈین لابی پوری طرح متحرک ہے اور برہان وانی سمیت کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق تصاویر لگانے پر فیس بک اکاؤنٹ بھی فوری ڈیلیٹ کر دیے جاتے ہیں، جب بھی کشمیر میں قتل عام میں تیزی آتی ہے اور لوگ بھارتی ظلم و دہشت گردی کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے ہیں تو فیس بک انتظامیہ میں موجود بھارتی لابی فوری متحرک ہوتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے جاتے ہیں، پچھلے چند برسوں میں اکثر مواقع پر یہ صورتحال دیکھنے میں آئی ہے،
باغی ٹی وی کے نمائندے خنیس الرحمن کی طرف سے چند دن قبل چیئرمین کشمیر کمیٹی سید فخر امام کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ آپ یہ باتیں ہمارے نوٹس میں لائیں ہم اس بارے میں جائزہ لیں گے.