Twitter @cikandarAli
یا شاید ایسا قسمت کے اتفاقات کا ہی نتیجہ تھا جو بلاشبہ اغلب ہوتے ہیں لیکن پچھلے دو سالوں میں کسی باعث ان کا کاروبار انتہائی غیر معمولی انداز میں چمکا تھا تھا۔ عملے کی تعداد دوگنی ہوئی ، آمدنی پانچ گنا پڑھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ترقی کی گئی ہنوز جاری تھا لیکن اس تبدیلی کے بارے میں وہ اپنے دوست کو کچھ نہیں بتا پایا تھا۔ شروع کے سالوں میں، شاید آخری بار اپنے تعزیتی خط میں، اس دوست نے جارج سے اصرار کیا تھا کہ وہ روس ہجرتکرے۔ نیز وہاں جارج کی کاروباری شاخ کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا تھا۔ اس حوالے سے جو اعدادوشمار پیش کیے گئے ، وہ جارج کی موجودہ کاروباری سرگرمیوں کے موازنے میں بہت کم تھے۔ وہ دوست کو اپنی موجوره کاروباری کامیابی کے بارے میں بتانے سے چپچپاہٹ محسوس کرتا رہاتھا۔ نہ یہ بہتر لگتا تھا کہ اب سارے قصے کو نئے سرے سے بیان کیا جائے۔
اس لیے جاری اپنے دوست کو خط میں ادھر ادھر کی غیر اہم باتیں لکھتا رہتاتھ جیسی باتیں ایسے کی کی پر سکون اور اردو استاتے ہوئے آدی کے ذہن میں آسکتی تھیں ۔ وہ تو بس یہی چاہتا تھا کہ اتنے بے عرصے میں اس کے دوست نے اپنے زہنی سکون کے لیے اس ملک سے متعلق اپنے ذہن میں جو تصور قائم کر رکھا ہے، وہ برقرار ہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جارج نے طویل وقفوں سے لکھے گئے تین بالکل مختلف خطوں میں ایک غیر اہم خص کی ایک میں ہی غیر اہم لڑ کی سے گئی ہو جائے کے واقہ تفصیل کے ساتھ بیان کیاحتی کہ اس کی توقع کے باکس اس کا دوست اس واقعے میں وقتی دی ظاہر کرنے لگا۔ جارج نے یہ بیان کرنے کے بجائے کہ مہینہ بھر پہلے اس کی فراولین فریڈا برینڈن قلڈ سے ، جوا بھی کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی منگنی ہوئی تھی، دوست کو ایسی غیر اہم باتیں بتانے کو تری دی تھی مگیتر سے اپنی گفتگو میں وہ اپنے دوست اور اس کے ساتھ اپنے بھی تعلق کے بارے میں اکثر بات کرتا جو اس خط و کتابت کے دوران پیدا ہوا تھا۔ تو کیا ہماری شادی میں نہیں آئے گا۔ مجھے تمھارے دوستوں کے بارے میں جانے کا ہے۔ اس کی منگیتر نے کہا۔ میں اسے کیا پریشانی میں گرفتارنہیں کرنا چاہتا۔ جارج نے جواب دیا ” مجھے غلط مت سمجھو ۔ شاید وہ آئے گا ایسا لگتا ہے لیکن و محسوس کرے گا جیسے اس کا حق مارا گیا ہو۔ اسے ٹھیس پہنچے گی ۔ شاید وہ مجھ سے حسد کرے اور یقینا مز ید آزرده ہوجائے گا۔ اپنی مایوسی کا سامنا کرنے کی اس میں اہلیت نہیں ہے سو اکیلا ہی نہیں نکل جائے گا۔ پھر سے اکیلا ہو جائے گا اس کا کیا مطلب ہے؟
کیا تمھارے خیال میں اسے کسی طرح سے ہماری شادی کی خرنہیں ہو جائے گی ؟
میں اس بات کو ہونے سے روک تو نہیں سکتا لیکن ایسا ہونا دشوارترین ہے، اس کا طرز زندگی ہی ایا ہے۔
جارج تمھارے دوست اس قسم کے ہیں تو بہتر تقاته منگنی ہی نہیں
اس کام میں تو ہم دونوں شامل ہیں ۔ جو ہو گیا ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ تب اس کے طویں برسوں کے دوران تیز تیز سانس لیتے ہوئے وہ کسی طرح کہ پی : ” بہرحال مجھے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے
تب اس نے سوچا اگر وہ اپنے دوست کومنگنی کے واقعے کے بارے میں بتادے اور امکان ہے کہ یوں وہ خود کو کسی اور پریشانی سے بچا سکے گا۔
میں ایسا ہی ہوں اور اسے مجھے ایسے ہی قبول کرنا ہوگا۔ میں خود کو اس کے موافق بنانے کے لیے بدل نہیں سکتا ۔اس نے اپنے آپ سے کہا۔ اور اصل میں اس نے اپنے طویل خط میں جو وہ اتوار کی صبح لکھتا رہا تھا، اپنے دوست کو اپنی منگنی کے بارے میں الفاظ میں اطلاع دی تھی: اختتام کے لیے میں نے سب سے بہترین خبر بچا کر رکھی ہے۔ میں نے شہر کے ایک متمول گھرانے کی لڑکی فراولین برینڈن فلڈ سے منگنی کر لی ہے۔ وہ لوگ تمھارے جانے کے کافی عرصہ بعد یہاں آباد ہوئے۔ اس لیے تم ان سے واقف نہیں ہوں۔ اس بارے میں آئندہ بھی تفصیل سے لکھوں گا لیکن آج کے لیے انا بنانا چاہتا ہوں کہ میں بہت خوش ہوں تمہارے اور میرے تعلق میں بس اتنا ہی فرق آیا ہے کہ اب تم مجھے ملو گے تو تمھیں مجھ جیسے عام دوست میں ایک آسودہ دوست ملے گا تم میری منگیتر کے بارے میں مزید بھی جائو گے، دو میں سلام کہہ رہی ہے اور جلد ہی خودبھی تھیں خط لکھے گی، ایک بچی عورت دوست کی طرح، جوایک غیر شادی شدہ شخص کے لیے بہر حال ایک خاص بات ہے۔ مجھے علم ہے بہت سی وجوہات ہیں تمھارے یہاں منانے کیلیکن کیا میری شادی ایک اہم موقع نہیں ہے جس کے لیے تم ان رکاوٹوں کو پس پشت ڈال دو اور لے چل او لیکن خیر جیسا بھی ہو ، وہی کرو جو تھیں، میری خواہش سے قطع نظر اپنے مطابق بہتر گئے اس خط کو ہاتھ میں لیے دیر سے جارج اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف کیے لکھنے کی کرسی پر بیٹا ہوا تھا وہ دیکھ ہی نہ پایا کہ گلی میں سے گزرتے ہوئے کسی واقف کار نے اسے ہاتھ ہلا کر ایک غائب مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا تھا۔
(جاری ہے۔)








