وزیر خارجہ اسحاق ڈار نےکہا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا کابل کا دورہ پاکستان کے لیے مہنگا ثابت ہوا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنرل فیض حمید حکومت کی اجازت کے بغیر کابل نہیں جا سکتے تھے، اور یہ ممکن نہیں کہ صدر اور وزیراعظم کی اجازت کے بغیر 100 سے زائد دہشتگردوں کو رہا کر دیا جائے۔اسحاق ڈار نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کا بھی ذکر کیا، جن کے باعث 2017 تک دہشت گرد حملے تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی رہائی اور واپس آنے کی اجازت دینے کی وجہ سے ملک میں دوبارہ دہشت گردی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جنرل فیض حمید اور دیگر ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، اور اگر جنرل باجوہ یا پی ٹی آئی کے بانی بھی ملوث ہوئے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کو سزا مل چکی ہے اور مقدمہ چل رہا ہے، ایسے حالات میں انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنے کا حق نہیں ہونا چاہیے تھا۔اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلبریٹی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں قانون سے مستثنیٰ سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے اور نہ ہی سیاستدانوں کو فوجی امور میں مداخلت کرنی چاہیے۔انہوں نے 9 مئی کے واقعہ پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملوث افراد کو پہلے اس واقعہ میں کلئیرنس حاصل کرنا ہوگی۔اسحاق ڈار نے جنرل مشرف سے تین ہزار سی سی کی گاڑیوں پر پابندی لگانے پر بھی اختلاف کا ذکر کیا۔
جنرل فیض حمید اور دیگر ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، اسحاق ڈار
