فلسفۂ خداوندی تحریر: محمدعادل حسین

0
39

اللہ رب العزت نے تخلیق کائنات کانظام مرتب کیا زمین ، آسمان ، حجر ، شجر ، چرند ، پرند ،الغرض بہت مخلوقات پیدا کی ان میں ایک مخلوق انسان بھی پیدا کی جس کی ابتداء آدم علیہ اسلام سے کی اس مخلوق تمام مخلوقوں سے افضل کہا اور ساری چیزیں اس کے تابع کردیں اس کی ضرویات کو پورا کرنے کی خاطر زمین سے فصل آسمان سے بارش جانوروں سے گوشت یا سواری کاکام البتہ ہر کوئی چیز کسی نا کسی لحاظ سے اس کی ضرورت کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔

پھر انسانوں میں بعض اقتدار بعض کورعایا بنایا کچھ کو امیر کچھ کوغریب پیدا کیا لیکن سب کا آپس میں ایک ربط بھی قائم کیا۔

اگر سب حکمران صاحب اقتدار ہی ہوتے
یا سب عام انسان رعایا ہی ہوتی تو نظام کاچلنا مشکل تھا۔

ان میں کچھ کو سمجھ بوجھ اور علم عطاء کیا تاکہ وہ انسانوں کو ایک منظم طریقے سے زندگی بسر کرنے کاشعور دیں سکیں۔

اسی سلسلہ کی ایک کڑی انبیاء علیہ السلام ہیں اللہ رب العزت نے ان کو وحی کے ذریعے علم دیا اور انسانیت کی رہمنائی کیلۓ ان کی زندگی کامقصد سمجھانے یہ سلسلہ جاری کیا اگر ایسا نہ ہوتا تو انسانوں اور جانوروں میں تمیز کرنا مشکل تھا ۔

ان میں فرق اور امتیاز قائم کرنے کی برادری اور قبیلوں کا نظام بنایا اگرچہ سب انسان آدمؑ کی اولاد ہی مگر پھر بھی ایک پہچان کیلۓ اس کی تشکیل کی۔

اب جوامیر اور غریب ہیں یہ بھی دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ہر سب غریب ہی ہوتے یاسب امیر ہی ہوتے تو نظام کا چلنا مشکل تھا۔

امیر کو اپنی طاقت دولت پہ ناز ہوتا اور کبھی کسی دوسرے کاکام نہ کرتا مثلا زندگی گزارنے گھرکھانے پینے کی ضروریات ہیں اور جو نظام کھتی باڑی کا وہ بھی نہ کرتا یہی کہتا میرے پاس پیسا ہے دولت ہے میں یہ سب کیوں کروں۔

اب غریب کوغریب اس لیۓ رکھا تاکہ وہ دوسروں کی اور اپنی ضروریات پوری کرنے کا کام کر سکے جب وہ کام کرتا ہے تو امیر سے معاوضہ لیتا ہے اور امیرپر جوذمہ داریاں ہیں وہ انہیں ادا کرتا ہے ناتو ہر انسان ہمیشہ امیر رہتا اور نی ہی ہر انسان ہمیشہ غریب رہتا ہے

اللہ رب العزت دن پھیرتے رہتے ہیں اور سب کو ہردور میں غربت اور امیری میں گزاز کر یہ بتلاتے کہ سب ایک دوسرے کی مدد کیلۓ ہیں دونوں ہی ایک دوسرے کے محتاج ہیں آج وسائل ہے تو کل ہو نہ ہو ایک دوسرے کادست بازو بن کے تعاون کامعاملہ اپنایا کریں ۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ہر مرحلے کو رب کی رضاء سمجھ شکر ادا کریں کسی غریب حقیر نہ جانے کیا پتا کل یم اس کی جگہ پہ ہوم اور وہ ہماری جگہ پر ۔

اب قربانی کا موقع ہی دیکھ لیں اس موقع پہ غریبوں سے تعاون چارہ کی مد میں جانوروں کی دیکھ بال کء مد میں اور اسی طرح ذبح کرنے والے بھی اکثر ان میں ہوتے ہیں ۔
کتنے جانور ذبح کرتے کیا سب اس گوشت سٹور کرتے شاید کئ لوگوں کا سٹور کرنا نامکن ہو سب ہی غرباء میں تقسیم کرتے ہیں کوئی تھوڑا کوئی زیادہ ۔

اپنی خوشیوں میں غریبوں کا شامل کرنے کی کوشش کریں اپنے اردگر نظر دھرائیں رشتہ دار ہمساۓ یا ایسے دوست جو جن مالی حالت کمزور ہے عید پہ جہاں گوشت ان کے ہاں بھیجتے وہاں ان کے بچوں کی ضروریات پہ بھی توجہ دیں۔

کسی چہرے پہ مسکراہٹ لانے اس کے دل سے جو دعائیں نکلیں ان دعاؤں کے حقدار بنے۔
یقینااس سے مال میں کمی نہیں بلکہ ان کی دعاؤں اللہ کی خوشنودی اور برکت حاصل ہو گی ۔

امیر ہونا کامیابی نہیں کسی مسکراہٹ کاذریعہ بننا اصل کامیابی ہے۔

Leave a reply