عائلی مشاورت
تحریر:فرحانہ مختار
بسا اوقات عائلی زندگی کی ہموار راہ گزر پہ کبھی کبھی بحث و تکرار یا اختلافات کا سامنا کرنا پڑتا جاتا ہے۔ ازواج کے مابین ایسے معاملات کبھی کبھار پیش آتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں۔ احسن طریقہ تو یہ ہے کہ آپس میں معاملہ فہمی اور سمجھداری سے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
مگرکیا کیجئےکہ شیطان کو سب سے زیادہ کوفت میاں بیوی کے مقدس رشتے میں قائم اُنسیت اور عزت و تکریم سے ہوتی ہے۔ اس لئے وہ وار کرتا رہتا ہے اور اسی لئے بسا اوقات ازواج کی آپس میں گفتگو معاملات کو مزید الجھا دیتی ہے۔ ایسے میں دونوں فریقین مسائل کے حل کے لیے اپنے علاوہ کسی غیر جانب دار شخص سے معاملات کو سلجھانے کے لئے کبھی کبھار مشاورت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ مشاورت دین میں پسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے لئے شخص انتہائی سمجھداری سے منتخب کریں۔
سورت النساء کے مطابق دونوں فریقین کے خاندان سے ایک ایک شخص صلح کے لئے منتخب کیا جائے۔ اگر اس سے بھی اختلافات دور نہ ہوں یا دونوں فریقین کے والدین یا بہن بھائیوں کے لئے غیر جانبدار ہونا قدرے مشکل ہو تو کوئی دیندار، سمجھدار اور معاملہ فہم رشتہ دار مشاورت یا صلح کے لئے منتخب کرنا بہتر ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ لوگ رحمانی بھی ہو سکتے ہیں اور شیطانی بھی۔ اللہ کے نیک بندے دوسروں کو مثبت سوچ کے ساتھ بہترین رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کا مقصد معاملات کو سلجھانا اور فریقین کا گھر بچانا ہوتا ہے۔
دوسری جانب کچھ منافقین صفت، منفی سوچ کے حامل افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ منفی بات کریں گے اور معاملات سلجھانے کی بجائے اُلجھا دیں گے۔ بعض اوقات رشتہ دار اور عزیز و اقارب میں سے جس شخص سے مشاورت کی جائے وہ بظاہر تو معاملہ فہم اور سمجھدار معلوم ہو لیکن غالب گماں ہے کہ اس کا مشورہ کسی بھی قسم کےبُغض، حسد یا منافقت پرمبنی ہو۔ وہ بظاہر معاملہ سلجھانے کی اداکاری کرے گا لیکن اس کا اصل مقصد معاملہ کو بگاڑنا ہو سکتا ہے۔ ایسے شخص سے احتیاط ضروری ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ انتہائی اہم ہے جن کے ذمے مسلمان نسل کی قرآن و سنت کے مطابق پرورش کرنا ہے۔ اس اہم تعلق میں اگر کبھی آپس کے معاملات بگڑ جائیں تو مشاورت کے لئے ہر دوست، عزیز، محلے دار یا رشتہ دار سے مشاورت نامناسب عمل ہے۔
عائلی مشاورت کے لئے بہترین اشخاص علماء دین اور مفتیانِ کرام ہیں جو کسی بھی معاملے کا دین اور شریعت کے مطابق حل فراہم کریں گے۔ ان کا اولین مقصد شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے فریقین کی اصلاح اور صلح و صفائی ہو گا۔
آخری بات!اللہ تعالی نے آپ دونوں کو اس مقدس رشتے میں باندھا ہے۔ ایک دوسرے کی شخصیت کو تمام اچھائیوں اور برائیوں سمیت قبول کرنا ہی عقلمندی ہے۔ معاملات کو آپس میں افہام و تفہیم سے حل کرنا بہتر ہے کیونکہ معاملات اگر بگڑ جائیں تو بات کمرے سے نکل کر گھر، گھر سے نکل کر زبان زدِ عام ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مزید تنازعات جنم لیتے ہیں اور فریقین کا صلح کرنا دشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔
انا کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کو صبر وتحمل سے سننے کی عادت ڈالیں تو بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہی نہ ہو گا۔