آڈیو لیکس کمیشن کے نوٹیفکیشن کیخلاف سپریم کورٹ کا حکم امتناع برقرار

0
52
supreme

سپریم کورٹ ،آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بنچ میں شامل تھے،درخواست گزار حنیف راہی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے،آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں،آپ یہ بھی سمجھیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں،جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا،

درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست پر اعتراضات کیخلاف چمبر اپیل دائر کی ہے۔تمام متفرق درخواستوں کو نمبرز لگے ہیں میری اپیل پر نمبر نہیں لگا اپیل کو اوپن کورٹ میں لگا کر سماعت کر لیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے درخواست پر اعتراض کیا لگا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے توہین عدالت کی درخواست کے درخواست گزار کی سرزنش کی اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معلوم ہے آپ نے توہین عدالت کی درخواست کس کیخلاف دائر کی ہے آپ نے ججز پر توہین عدالت کا الزام لگایا ہے عمومی طور پر ججز کو توہین عدالت کی درخواستوں میں فریق نہیں بنایا جاتا مناسب ہے پہلے توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات کو دور کریں توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور متعلقہ شخص کے مابین ہوتا ہے ،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق آج ججز کیخلاف دائر اعتراضات پر دلائل ہونے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعتراضات پر دلائل شروع کریں

اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنا دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ
آپ کس نقطے پر بات کرنا چاہیں گے؟ آپ ایک چیز مس کر ریے ہیں،چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ان نکات پر آپ دلائل دیں، اٹارنی جنرل نے بنچ پر اعتراض کی درخواست پر دلائل کا آغاز کر دیا اور کہا کہ عدالت نے حکم نامہ میں جن فیصلوں پر انحصار کیا وہ ججز کی جانبداری سے متعلق ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنسز ان فیصلوں کے دیے گئے ہیں جہاں متبادل نہ ہو تو فیصلہ مجاز فورم ہی کرتا ہے، ایسی صورتحال میں جانبداری کا الزام واحد دستیاب فورم پر نہیں لگ سکتا، چیف جسٹس کا عہدہ آئینی ہے جس کے انتظامی اختیارات بھی ہوتے ہیں، چیف جسٹس دستیاب نہ ہوں تو آئین کے تحت قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر ہوتا ہے،چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں کیے جا سکتے، موجودہ کیس میں کیا الزامات ہیں معلوم نہیں، چیف جسٹس نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کمیشن کیلئے ججز دستیاب ہیں یا نہیں، مفادات کا ٹکرائو ہو بھی تو چیف جسٹس آفس ہی فیصلہ کرے گا کیونکہ یہ آئینی عہدہ ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک اعتراض بنچ کی تشکیل دوسرا کمیشن کے ٹی او آرز کی بنیاد پر ہے، چیف جسٹس کی جانب سے کمیشن کیلئے نامزدگی دوسرا اعتراض ہے، ججز ضابطہ اخلاق کے تحت موجودہ بنچ کے کچھ ممبران کیس نہیں سن سکتے، مفادات کا ٹکرائو ہو تو ججز کو بنچ سے الگ ہو جانا چاہئے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ اختیارات کی آئینی تقسیم اور قانونی نکات پر بات کریں،عدلیہ کی آزادی کے نکتے اور ماضی کے عدالتی فیصلوں سے متفق ہیں یا نہیں پہلے یہ بتائیں،آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بنچ کی تشکیل پر دلائل دونگا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اس نقطے پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے،میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں،دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس منیب اختر کا آڈیو لیکس سے تعلق ہے آپ تینوں ججز کیس نہ سنیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی موجودگی میں پوچھے بغیر ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا گیا، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے اس پر دلائل دیں،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا قانونی طور پر درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتہ وہ بنچ پر اعتراض اٹھائے؟ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس کسی نے کی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی زمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان نو مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اورعدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کا نام لے کر آڈیو بنا دو،کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں، یہ آپشن اسلیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ حکومت کمیشن کے زریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی،کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے زریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا،ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے،کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں،جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ اگر وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو کیا وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے،اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتہ کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟ کون یہ سب کر رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ نے آڈیوز کو مبینہ قرار دیتے ہوئے کمیشن تشکیل دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججز کو بدنام کرکے معاملہ حقائق جاننے کیلئے بھیج دیا گیا،واہ کیا خوبصورتی سے یہ کام کیا گیا، ججز کی تضحیک کی آخر کیا وجہ تھی؟ کابینہ نے خود کو ایسے بیانات سے الگ کیوں نہیں کیا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم میڈیا اور پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر آپ کو شرمندہ کریں؟ حقائق جانے بغیر ججز کی تضحیک کی گئی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی سائل نے جج تبدیل کرانا ہو تو ایک آڈیو بنا کر لیک کروا دے گا، اکثر سائلین خود پیش ہوتے ہیں کیس نہ بنتا ہو تو جج پر الزام لگا دیتے ہیں،کیا ایسے موقع پر جج نظام انصاف کو دیکھے یا اٹھ کر چلا جائے اور کیس نہ سنے؟ کل کوئی جج کا نام لے کر ویڈیو بھی ٹوئٹر پر ڈال سکتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آڈیوز کو پلانٹ کیا گیا حکومت کے پاس وسائل ہیں کہ تعین کر سکے کس نے پلانٹ کیا، کمیشن بھی حکومت سے ہی معاونت لے گا، کیا حکومت نے آڈیوز کے حوالے سے کام کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کیلئے کمیشن تشکیل دیا ہے کمیشن جس بھی ادارے کو کہے گا وہ معاونت کرینگے،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کیس سننے والے سات میں سے چار ججز کی فون ٹیپنگ کی گئی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا،بینظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراو کا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کاروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟ ایک ٹویٹر ہینڈل بار بار ایسا مواد جاری کر رہا ہے، یہ سوال ہے ایسی آڈیوز لیک کون کرتا ہے، جس ٹویٹر اکاؤنٹ نے یہ آڈیوز جاری کی اسکے خلاف کیا قانونی کاروائی کی گئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری اس سارے معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں ہے، بنچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہوگا،استدعا ہے کہ بنچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے، ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے اس کا جائزہ لے لیں، کمیشن آڈیو سے متعلق تمام عوامل کا جائزہ لے گا۔وفاقی حکومت کا موقف ہے یہ آڈیوز مبینہ ہیں۔کسی نے پریس کانفرنس کی ہے تو اسکا انفرادی فعل ہے انفرادی فعل پر کابینہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عام طور پر وزراء کے بیانات کو حکومت کی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تحریری اعتراض جج پر اٹھایا جائے تو صورتحال مختلف ہوجاتی ہے ،وفاقی حکومت کا کسی جج کیخلاف تعصب کا نہیں ،وفاقی حکومت کا کیس ججز کے مفادات کے ٹکراو کا ہے ،ججز پر اعتراض کسی منفی مقصد کے تحت نہیں اٹھایا گیا

اٹارنی جنرل نے دوران سماعت ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیا،اور کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں بنچ سربراہ جسٹس افتخار چوہدری تھے،ایک فریق کی استدعا پر جسٹس افتخار چوہدری نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا اعتراض دیگر دو ججز پر بھی ہے، کیا آپ دیگر دو ججز پر اعتراض واپس لینگے یا باری باری ہر جج پر دلائل دینگے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست اور اعتراضات کا متن عدالت کے سامنے ہے،بنچ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کر لئے

وکیل صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ تمام آڈیوز 16 فروری کے بعد کی ہیں، عدالت نے انتخابات کا مقدمہ سننا شروع کیا تو آڈیوز آنا شروع ہوگئیں، ایک ہیکر کے اکائونٹ سے تمام آڈیوز لیک کی جاتی ہیںحکومت انتخابات کیس میں فریق ہے وہی کمیشن بھی بنا رہی ہے، پہلا سوال یہی بنتا ہے کہ آڈیوز ریکارڈ اور لیک کون کر رہا ہے، کمیشن کے ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے، اس بنچ نے کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ نہیں دینا ایک تشریح کرنی ہے،جس بنیاد پر بنچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی، کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی تسلیم کر لیں؟یہ تو بلیک میلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا، کسی بھی فیک آدمی کے زریعہ جعلی آڈیوز بنوا دی جایا کریں گی،اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا،اس پر آڈیوز آنے لگی اور ٹاک شوز میں کیا نہیں کہا گیا پیمرا اس دوران کہاں ہے دیکھ لیں پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں،عدلیہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی،عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں،لوگوں کے سیاسی نظریات پر ان کے بیاسی سال کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے،کیا عدلیہ میں ایگزیکٹو ایسے مداخلت کرے گی،

آڈیو لیکس کمیشن کے نوٹیفکیشن کیخلاف سپریم کورٹ کا حکم امتناع برقرار رکھا گیا ہے، عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی،

حکومت نے چیف جسٹس سمیت بینچ کے 3 ممبران پر اعتراض کردیا

زیر تحقیق 9 آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ جاری

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

Leave a reply