ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاور خان نے تھانہ شہزاد ٹاؤن کی حدود میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی دس سالہ بچی فرشتہ قتل کیس کے ملزم کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
فاضل عدالت نے کیس کا ٹرائل مکمل ہونے پر اپنا فیصلہ سنایا۔اس موقع پر مقتولہ بچی کے ورثاء بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ پچاس سالہ ملزم نثار کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ دس سالہ ننھی بچی فرشتہ تین سال قبل 15مئی 2019ء کو تھانہ شہزادٹاؤن کی حدود سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوئی اور 22 مئی کو اس کی لاش جنگل ایریا سے برآمد ہوئی تھی۔بچی کی لاش مکمل طور پر مسخ شدہ تھی۔فرشتہ کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔جس کا مقدمہ نمبر 99/19 بجرم 302 تھانہ شہزادٹاؤن میں درج کیا گیا۔اس کیس کی تفتیش شروع ہوئی تو پولیس کو اصل قاتل تک پہنچنے کے لئے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
مقتولہ کی لاش کئی روز بعد ملنے اور ناقابل شناخت حد تک گلنے سڑنے کی وجہ سے پولیس کو اہم شواہد بھی نہ مل سکے۔پولیس اس کیس میں ڈی این اے اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل نہ کرسکی۔تاہم اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اس کیس پر نوٹس لیا اور آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کی۔جس پر پولیس کی تحقیقاتی ٹیموں نے دن رات ایک کردیا اور بالآخر پولیس نے فرشتہ قتل کیس میں ملوث پچاس سالہ نثار نامی ملزم کو علی پور کے ایریا سے گرفتار کرلیا۔
ملزم نثار کے خلاف اس نوعیت کے پہلے سے ہی دو مقدمات درج تھے۔فرشتہ قتل کیس میں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی رہا کہ جب بچی کے ورثاء اپنی بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے تھانہ شہزاد ٹاؤن گئی تو سب انسپکٹر عباس رپورٹ درج کرنے کی بجائے انہیں ٹالتا رہا۔
مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بچی کے والد غلام نبی کو پولیس کا یہ آفیسر یہ کہتا رہا کہ بچی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔بچی کے ورثاء جب بھی تھانے جاتے قانون کے یہ رکھوالے ان کے ہاتھ میں جھاڑو تھما کر ان سے تھانے کی صفائی ستھرائی کا کام لیتے اور پھر انہیں واپس گھر بھیج دیا جاتا۔بچی کی لاش برآمدگی کے بعد جب یہ کیس ہائی لائٹ ہوا تو غفلت برتنے والے ان پولیس افسران کے خلاف بھی پولیس حکام کو چاروناچار کارروائی کرنی پڑی۔