یوں تو شروع دن سے ہی مار کھانا ہندوستان کا مقدر ہے جیسا کہ محمد بن قاسم ،شہاب الدین غوری،محمود غزنوی،ٹیپو سلطان و دیگر مسلمان جرنیلوں سے ہندوستان کی خوب درگت بنتی رہی مگر پچھلی صدی میں شاہ اسماعیل شہید،علامہ محمد اقبال و محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے جذبہ جہاد بلند کیا اور دو قومی نظریہ پیش کرکے اور پاکستان بنا کر ہندو کیساتھ انگریز کو بھی سرپرائز دیا
مگر اپنی درگت بنوانے کا عادی ہندو سکون سے نا بیٹھ سکا اور مقبوضہ وادی کشمیر کو آزاد کرنے سے انکاری ہو گیا جس پر پاکستان کے غیور قبائلیوں،افواج پاکستان اور وادی کشمیر کے شیروں نے مل کر ہندو کی خوب درگت بنائی اور وادی کشمیر کے کل 84474 مربع میل میں سے 32093 مربع میل آزاد کروا کر اسے ایک زبردست ترین سرپرائز دیا جس پر ہندو وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھاگم بھاگ اپنے آقا انگریز کے پاس سلامتی کونسل پہنچا اور جنگ بندی کیلئے منت سماجت کی ورنہ یہ سرپرائز بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہی مکمل ہونا تھا
6 ستمبر 1965 کو ایک مرتبہ پھر ہندو کو اپنی درگت بنوا کر سرپرائز لینے کی سوجھی اور اس نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کر دیا جس پر امت محمدیہ کی پاک فوج نے ایسا سرپرائز دیا کہ 17 روزہ جنگ میں ہندو تو پریشان ہونا ہی تھا پورا عالم کفر اس سرپرائز پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور یوں ایک مرتبہ پھر ہندو اپنے آقا انگریز کے پاس سلامتی کونسل میں پہنچا اور جنگ بندی کروائی
دو مرتبہ سرپرائز لینے کے بعد ہندو نے اپنا طریقہ بدلا وہ جان چکا تھا مغربی پاکستان میں اسے دو مرتبہ سرپرائز بہت مہنگا پڑا ہے لہذہ اس مرتبہ اس نے مشرقی پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرکے کچھ غداران ملک و ملت کو اپنے ساتھ ملایا اور مکتی باہنی کے نام پر ایک مسلح لڑاکا تنظیم بنائی جس نے پاک فوج پر حملے شروع کر دیئے اور بنگلہ دیش کو الگ ملک بنانے کی تحریک شروع کر دی اس مرتبہ ہندو کا وار کچھ کارگر ہوا مکتی باہنی و انڈین فوج نے بنگلہ دیش کی عوام میں پاکستان کے خلاف خوب زہر بھرا اور یوں مکتی باہنی کی پاک فوج سے باقاعدہ جھڑپیں شروع ہو گئیں جس کی کمان اینڈ کنٹرول انڈین فوج کے ہاتھ تھی آخر مکمل جنگ چھڑ گئی مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک گولہ بارود کی رسد ختم ہو کر رہ گئی مگر پھر بھی پاک فوج کے شیروں نے وسائل کی کمی اور اپنوں کی غداری کا غم سہہ کر بھی مردانہ وار مقابلہ کیا مگر فوجی افسران و جوان ہتھیار پھینکنے کو تیار نا تھے جس پر مکتی باہنی اور انڈین فوج نے بنگلہ دیش کے پاکستانی حامی لوگوں و مغربی پاکستان سے آئے سول اداروں کے اہلکاروں کے خاندان کے لوگوں کو شہید کرنا شروع کر دیا جو کہ انتہائی تشویشناک بات تھی اس کے بعد بھارت نے ایک اور چال چلی اور جنگ بندی کا اعلان کردیا اور اپنی فوجیں ڈھاکہ میں لا کر ایسٹرن کمان کے امیر عبداللہ خان نیازی سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا جس پر جوانوں و افسروں میں تشویش کی لہر ڈور گئی اور انہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا جس پر مکتی باہنی اور انڈین فوج نے دوبارہ عام شہریوں کو شہید کرنا شروع کردیا اس پر مجبور ہوتے ہوئے اور نا چاہتے ہوئے بھی ہماری فوج کو اپنوں کی غداری کی بدولت 6 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں 45000 فوجی اور 40000 سے کم سول محکموں کے اہلکار انڈین فوج کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گئے مگر پاکستان کو فتح کرنے کا انڈین خواب پھر بھی شرمندہ تعبیر نا ہوسکا کیونکہ 1971 میں راجھستان کے محاذ لونگے والا میں انڈین فوج کو سخت جانی مالی نقصان اٹھانا پڑا اور انڈین فوج اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر پیچھے بھاگی جس کا اعتراف خود انڈین جرنیل بھی کرتے ہیں اسی طرح سلیمانکی کے محاذ پر میجر شبیر شریف شہید نے دشمن کو بہت پیچھے تک دھکیل دیا اور ان کی کئی پوسٹوں پر قبضہ کرلیا جبکہ قصور کے محاذ پر ایسی کاری ضرب لگائی گئی کہ کھیم کرن کا محاذ چھوڑ کر انڈین فوج پیچھے کو بھاگ نکلی اور اس طرح تاریخی شکست انڈیا کو 1971 میں قصور کے محاذ پر ہوئی زندہ دلان قصور نے اپنی پاک فوج کیساتھ مل کر کھیم کرن شہر پر قبضہ کرکے پاکستانی پرچم لہرایا جس کی تصویریں آج بھی انڈین فوج اور عوام کے ذہنوں پر سوار ہیں غیور قصوریوں نے کھیم کرن سے خوب مال غنیمت حاصل کیا جس کے ثبوت کے طور پر آج بھی اہلیان قصور کے گھروں میں لگے انڈین شہر کھیم کرن سے لائے گئے دروازے ،کھڑکیاں،برتن و دیگر سامان ضرورت لوگوں کے پاس موجود ہے حتی کہ رائیونڈ قصور روڈ جو کہ کچہ راستہ تھا اسی کھیم کرن سے لائی گئی مال غنیمت کی اینٹوں سے بنا
28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے ایک بار پھر انڈیا کو بہت بڑا سرپرائز دیا مگر شاید مار کھائے بغیر سرپرائز کو قبول کرنا انڈیا کی عادت نہیں سو اس نے 1999 میں کارگل کے مقام پر پاکستانی فوج اور مجاھدین کشمیر سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 3 مئی 1999 کو باقاعدہ ایک جنگ کا آغاز ہوا جس میں انڈیا کے 30000 اور پاکستان کے 5000 فوجی آمنے سامنے ہوئے پہلے ہی ہلے میں انڈیا کے 1000 سے زائد سپاہی مارے گئے جبکہ 2000 کے قریب فوجی زخمی ہونے کیساتھ انڈین ائیر فورس کے 3 طیارے تباہ ہوگئے جس سے بھارتی فوج سخت گھبراہٹ کا شکار ہو گئی اور دونوں ملکوں پر ایٹمی قوت ہونے کی بدولت عالمی دباؤ بڑھ گیا اور یوں دونوں ملکوں کو بغیر کسی نتیجے کے جنگ بندی کرنی پڑی مگر نقصان کے لحاظ سے ایک بار پھر شکست انڈیا کی ہوئی
14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں انڈین فوج پر کشمیری مجاھدین کی مسلح آزادی پسند تحریک جیش محمد کی طرف سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 200 سے زائد انڈین فوجی مارے گئے جبکہ سرکاری طور پر انڈیا نے صرف 44 فوجیوں کی موت تسلیم کی پلوامہ حملے کے بعد اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے انڈیا نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی شروع کردی جس پر پاک فوج کی طرف سے بھرپور جواب دیا گیا جھڑپیں بڑھتی گئیں اور 26 فروری 2019 کو انڈیا نے ایک بار پھر رات کی تاریکی میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے طیارے پاکستانی حدود میں داخل کئے مگر ہمارے شاہینوں کی بروقت اڑان سے انڈین پائلٹ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں اپنے جنگی جہاز کا پے لوڈ لائن آف کنٹرول کے نزدیک بالا کوٹ کے مقام پر گرا کر بھاگ گئے اور دعوی کردیا کہ ہم نے پاکستانی علاقے میں جاکر جیش محمد کے ٹریننگ کیمپوں پر فضائی کاروائی کرتے ہوئے 350 سے زائد جیش محمد کے کارکنان شہید کر دیئے ہیں جس کے چند گھنٹوں بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اس جھوٹ کو جلد بے نقاب کرینگے اور ایک سرپرائز بھی دینگے جنرل صاحب کے بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستانی ائیر فورس کے دو شاہینوں اسکورڈن لیڈر حسن صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے انڈین علاقے میں گھس کر اس کے دو طیارے مار گرائے جن میں سے ایک طیارہ مقبوضہ وادی کشمیر جبکہ دوسرا آزاد کشمیر کے علاقے میں گرا جس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو کشمیری عوام نے گھیر لیا اور اس کی تاریخی دھلائی کرکے ایک بہت بڑا سرپرائز دیا اس کے بعد پاکستان نے انٹرنیشنل میڈیا کو بالاکوٹ کا دورہ بھی کروایا جس پر انٹرنیشنل میڈیا نے انڈین ائیرفورس کی ناکامی کا پول کھول کر اسے ایک اور ناکامی کا سرپرائز دیا
ابھی نندن کی رہائی کیلئے انڈیا نے اقوام عالم کیساتھ پاکستان کی بھی منت سماجت شروع کر دی جس پر ونگ کمانڈر ابھی نندن کو اچھی چائے اور کھانا کھلانے کے سرپرائز کے بعد واہگہ کے راستے انڈیا بھجوا دیا گیا
معرکہ 27 فروری پر میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کیا تھا کہ انڈین اس سرپرائز کو کبھی بھی نہیں بھلا سکیں گے اور ان شاءاللہ ایسا ہی ہے پچھلے سرپرائزوں کی طرح انڈیا اس سرپرائز ڈے 27 فروری کو کبھی بھول نہیں سکے گا
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved