ایف آئی اے کی طلبی کے باوجود قاسم سوری پیش نہ ہوئے

0
71

آج سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کو ایف آئی اے نے طلب کر رکھا تھا جبکہ وہ پیش نہ ہوسکے۔

سابق ڈپٹی اسپیکر اور تحریک انصاف کے رہنما قاسم سوری کو ایف آئی اے نے طلب کرلیا ہے، اور انہیں ایف آئی اے کوئٹہ میں ذاتی حیثیت سے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو غیر ملکی رقوم کیس میں طلب کیا گیا ہے، تاہم وہ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آج کوئٹہ ایف آئی اے میں حاضر نہیں ہوئے۔

پی ٹی آئی کے رہنماء قاسم سوری کا رد عمل

نوٹس کے حوالے سے قاسم سوری نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ رات مجھے نوٹس موصول ہوا، نوٹس میرے بھائی نے وصول کیا، کیوں کہ میں اسلام آباد میں ہوں۔

قاسم سوری نے بتایا کہ 2011 سے 2013 تک بھیجی گئی رقم پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکائونٹ میں آئی، یہ رقم میرے ذاتی اکائونٹ میں نہیں بھیجی گئی، یہ رقم پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے مختلف پارٹی اور دفتری امور کے لئے استعمال ہوئی.

قاسم سوری نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے چار رہنمائوں کو نوٹسز جاری ہوئے ہیں، میں اسلام آباد میں ہوں آج ایف آئی اے کوئٹہ میں پیش نہیں ہو سکتا۔

سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے نوٹسز کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقات شروع

5 اگست کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا، اور بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے تحریک انصاف کیخلاف 5 مختلف انکوائری ٹیمیں بنادی گئی ہیں۔

حکام ایف آئی اے کے مطابق تحریک انصاف کیخلاف پانچ مختلف انکوائری ٹیمیں بنادی گئی ہیں اور یہ انکوائری کمیٹیاں لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں کام کریں گی۔

حکام ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی سے متعلقہ ریکارڈ مانگا جائے گا، جب کہ پانچوں ٹیموں کو ہیڈکوارٹر میں ایک بڑی کمیٹی سپروائز کرے گی۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی رکن اکبر ایس بابر کو فارن فنڈنگ کے معاملے پر اختلاف کے بعد جماعت سے نکال دیا تھا۔

اکبر ایس بابر نے 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی، الیکشن کمیشن میں اس کیس کی تقریباً 200 سماعتیں ہوئیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کے معاملے پر وکلاء کی 9 ٹیمیں تبدیل کیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 جون کو فریقین کے دلائل کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ تمام ریکارڈ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کی گئیں 9 اکاؤنٹس کی تفصلات سے اکھٹا کیا گیا ہے جبکہ اکبر ایس بابر کی طرف سے 50 کے قریب پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو درخواست دی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 2 اگست کو سنایا۔

فیصلے کے مندرجات

الیکشن کمیشن نے اپنے 70 سفحات پر مشتمل فیصلے میں 351 غیر ملکی کمپنیوں اور 34 افراد سے ملنے والی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دیا ہے۔

جن فنڈز کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ان میں ووٹن کرکٹ اور برسٹل سروسز کے علاوہ امریکا، آسٹريليا اور کینیڈا سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل ہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ تمام فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔

3 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق اقدامات کرے اور فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوائی جائے۔

فیصلے میں کہا گيا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے ملنے والی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی نے صرف 8 بينک اکاؤنٹس ظاہر کئے جب کہ مجموعی طور پر 16 اکاؤٹس چھپائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 13 اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے کھلوائے مگر ان سے لاتعلقی ظاہر کی، اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17 (3) کی خلاف ورزی ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ 2008 سے 2013 تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ صریحاً غلط ہیں، عمران خان کے سرٹیفکیٹ اسٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

Leave a reply