فیفا ورلڈ کپ قطر اور الباکستانی عوام — عبدالقدیر رامے

3 سال قبل
تحریر کَردَہ

خیر عرصہ قبل ہم پر دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے تو لگ ہی چکے تھے البتہ آج نیا اور دلچسپ فتویٰ لگا.. جلن کا فتویٰ..

کچھ باتیں کلئیر کر دوں کچھ دوست باتوں کی گہرائی کو سمجھے بناء کمینٹ کرتے ہیں اور پھر جواب لیے بناء بلاک کرکے نکل جاتے ہیں جس کی ہمیں قطعاً پرواہ نہیں ہے لیکن باقی دوستوں کیلئے سرِ دست عرض یہ ہے کہ مجھے کسی بھی مسلم ملک کے سسٹم سے کوئی مسئلہ نہیں، وہ جیسا بھی سسٹم اپنائیں ان کا حق ہے..

سعودیہ تاریخی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، ترکی عرصہ سو سال سے لبرل ہے، ایران کٹر مسلکی مذہبی ریاست ہے، افغانستان ایک الگ سکول آف تھاٹ کے سسٹم گزر رہا ہے.

ہر سسٹم کی کچھ مثبت چیزیں ہوتی ہے اور کچھ منفی.. سو فیصد درست کہیں بھی کچھ بھی نہیں ہوتا البتہ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں قطعاً عار نہیں ہے کہ مذکورہ بالا تمام ممالک کا سسٹم ہمارے ملک سے کہیں بہتر ہے وہاں سسٹم خرابیوں کے باوجود اپنی عوام کو کچھ نہ کچھ دے رہا ہے لیکن ہمارے ہاں کا سسٹم عوام کو دینا تو کُجا.. دن بدن عوام سے چھین ہی رہا ہے..

عوام کی بات کی جائے تو مذکورہ بالا تمام ممالک کے عوام مجموعی طور دینی اقدار میں ہم سے کہیں آگے ہیں انفرادی اعمال میں کہیں بہت زیادہ آگے ہیں اجتماعی معاملات بھی ہم سے کہیں بہتر ہیں.

حکومتوں کی بات کی جائے تو ان کے ہاں ایک پالیسی ہے جسے ہر حال میں اپلائی کرتے ہیں اور پورے ملک کے سب ادارے اسی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں یعنی کہ ڈسپلن سب پر لاگو ہے..

2000 سے پہلے قطر کی طرف کوئی دیکھنا گوارہ نہیں کرتا تھا لیکن پھر انڈسٹریل انقلاب نے قطر کا رخ کیا اور دنوں میں قطر اس خطے کی معاشی طاقت بن گیا..

صرف یہ کہ نیک نیتی اور درست پالیسی.. انہوں نے بڑی بڑی کمپنیوں سے معاہدے کیے جنہوں نے انڈسٹری لگائی اور ابتدائی چند سال کی انکم ان کمپنیوں نے لی.. اس کے بعد وہ انڈسٹری ریاست قطر کی ملکیت میں چلی گئی..

ان لوگوں کی کام سے لگن کا اندازہ اس بات سے لگائیں میں 2016 میں قطر گیا تب وہاں فیس بک پر 2022 کے ورلڈ کپ کے ایڈ دیکھنے کو ملا کرتے تھے.

پچھلے سال میں قطر ایئرویز کی فلائٹ سے 28 نومبر کو اسلام آباد سے نجف براستہ قطر گیا تو فلیٹ میں دیے گئے کھانے کی پیکنگ پر فیفا ورلڈ کپ 2022 کا اشتہار تھا یہاں تک چاکلیٹ پر بھی چاکلیٹ کے ذریعے ہی لوگو بنایا ہوا تھا جس کی تصویر لگائی ہے.. مطلب کہ جس کمیٹی کے سپرد یہ فیفا کپ 2022 کی ایڈوائزنگ کا کام تھا انہوں نے کوئی راستہ خالی نہیں چھوڑا پوری تندہی سے کام کیا..

دوسری طرف پاکستان کو 2 لاکھ ملازمین کی خدمات اس موقع پر فراہم کرنے کا کہا گیا تھا جس میں پاکستان اس بیروزگاری کے دور میں صرف 43 ہزار افراد بھیج سکا.. وہ بھی ایسے لوگ جو خود تگ و دو کرکے ایجنٹوں کو پیسے دے کر چلے گئے حکومت نے اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی…

یہاں تک ہو گئی ایک بات.. دوسری بات یہ کہ مجھے قطر میں آنے والے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے یا ان کے اسلام قبول کرنے سے یا شراب کے متعلق اقدامات لینے سے کوئی جلن نہیں ہے لیکن اس معاملے کو انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جس کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں..

پہلی بات تو یہ کہ قطر اور دیگر عرب ممالک کا رویہ پاکستان کے بارے میں انتہائی دوہری پالیسی پر مبنی ہے.. چیدہ چیدہ بتاؤں تو

پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کو ترجیح دینا، پاکستان کے کرپٹ عناصر سے تعلقات رکھنا انہیں سہولت کاری فراہم کرنا اور لوٹ مار کے بعد نکلنے میں مدد کرنا انہیں اپنے ملکوں میں پناہ دینا.

پاکستان سے لُوٹا گیا مال سب سے پہلے عرب ممالک میں جاتا ہے جہاں رائل فیملیز کے لوگ ان کرپٹ عناصر کی مدد کرکے بلیک منی کو وائیٹ منی میں تبدیل کرواتے ہیں اور ان کے ساتھ کاروباری شراکت داری کرتے ہیں اس دوران یہ ممالک یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ یہ پیسے پاکستان سے نکلنے کے بعد پاکستان کے مسلمانوں یا دیگر عوام پر کون سی قیامتیں برپا ہوتی ہیں ان کی زندگی کس عذاب میں دھنستی چلی جاتی ہے .

مطلب کہ جب آپ ریاستی سطح پر غیرمسلم کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے جیسے ہو جاؤ تو آپ کس کیریکٹر اور کس اخلاقی قدر کے ساتھ اسے یہ بات کہہ رہے ہیں؟

میری دعا ہے کہ جنہوں نے اس موقع پر اسلام قبول کیا ہے اللہ کریم انہیں استقامت عطاء فرمائے اور مزید اہلِ خیر کو مشرف بہ اسلام ہونے کی توفیق عطاء فرمائے .

لیکن مجموعی طور پر ہم مسلمانوں اور ہماری ریاستوں کا کیریکٹر ایسا ہے سہی کہ ہم انہیں یہ کہہ سکیں کہ ہمارے جیسے ہو جاؤ؟ اگر ہمارے کردار درست ہو جائیں تو ہمارا دنیاوی عمل ہی تبلیغ بن جائے اس کیلئے ہمیں الگ سے کسی کو کچھ کہنا ہی نہ پڑے کیونکہ یہ ایک ایسا وقت جا رہا ہے کہ دیگر ادیان کے لوگوں کی اکثریت اپنے ادیان سے مطمئن نہیں ہے یہاں تک کہ ایتھیسٹس کی اکثریت بھی ذہنی تذبذب کا شکار ہے ان کی اکثریت کو الہامی دین کی تلاش ہے اگرچہ اظہار نہ بھی کرتے ہوں .

اس وقت ہماری ریاستوں کا مجموعی کردار اور ہمارے عمومی اقدار بہتر ہوں گے تو لوگ ہمارے دین کو قبول کریں گے ورنہ یقین کریں کہ یہ ہمارے مسلمان ممالک کی حکومتوں کی بددیانتی پر مبنی پالیسیاں اور ہم مسلمانوں کے اعمال اور بدعنوانیاں ہی اسلام کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مثال دیتا ہوں جس طرح کی حرام توپیاں محترمہ انجلینا جولی ہمارے ملک میں آکر دو مرتبہ دیکھ کر گئی ہیں وہ ہمارے اعمال دیکھ کر یا پھر شریف خاندان کی الثانی خاندان کے ساتھ مشترکہ کرپشن دیکھنے کے وہ ان دو حکومتوں کی دعوت پر اسلام قبول کر لیں گی؟

اس لیے دوستو ت بزرگو.. ٹھنڈے رہا کرو.. ہر معاملے کو مفت کی ہائیپ نہ دیا کرو.. اگر کچھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں تو انہیں مسلمان رہ لینے دو ایسا نہ ہو کہ ہمارے کرتوت انہیں پتہ چل جائیں .

مزید یہ کہ ان کے مسلمان ہونے پر صرف اتنا شور مچاؤ کہ اگلی مرتبہ بھی کپ کی میزبانی کسی مسلمان ملک کو مل سکے.. بات سمجھ رہے ہو؟

بیشک سب کو اپنی جانب کر لو لیکن پیچھے آنے والوں کے راستے بند مت کرو..

رہی بات شراب پر پابندی والی.. تو بندۂ ناچیز نے 2016 میں قطر کے دوحا ایئرپورٹ کے مالز پر زندگی میں پہلی مرتبہ شراب کی بوتلیں دیکھیں اور عام مارکیٹ کے شاپنگ پلازوں میں شراب بِکتی دیکھی تھی قطر ایئر ویز میں دوران پرواز اگر کوئی شراب پینا چاہے تو اسے فراہم کی جاتی ہے..

قطر نے صرف دورانِ میچ اسٹیڈیم میں شراب نوشی پر پابندی عائد کی ہے.. اس کے علاوہ چلے گی اور علاطول چلے گی..

Latest from بلاگ